اسامہ کی ہلاکت کے بعد، پاکستان سے متعلق نئی امریکی پالیسی کا مطالبہ
24 مئی 2011خبر ایجنسی روئٹرز نے اسلام آباد سے اپنے ایک تفصیلی تجزیے میں لکھا ہے کہ افغان جنگ کے حوالے سے پاکستان کے کردار پر اب کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ مسقبل میں اسلام آباد حکومت کے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت پر امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھی آپس میں منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ دو مئی کو پاکستانی شہرایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے خفیہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکی ایوانوں میں یہ بحث گرم ہو چکی ہے کہ آیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے دہشت گردوں کے ساتھ روابط ہیں ؟
دوسری طرف افغانستان سے امریکی افواج کے مرحلہ وار انخلاء سے قبل وہاں تشدد آمیز واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کئی امریکی سیاستدان پاکستان کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے عسکریت پسند افغانستان میں سرحد پار کارروائیوں میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج پر حملوں کی منصوبہ بندی پاکستانی قبائلی علاقہ جات سے ہی کی جاتی ہے۔
اس صورتحال میں واشنگٹن اور اسلام آباد حکومتوں کے مابین بد اعتمادی کی فضا نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ بالخصوص اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے بعد اوباما کی انتظامیہ پر اس دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے کہ وہ اب دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اپنے ایک اہم اتحادی ملک کے طور پر پاکستان سے متعلق ایک نئی پالیسی بنائے۔
اگرچہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کہہ چکی ہے کہ اسے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا تاہم کچھ امریکی سیاستدان اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ واشنگٹن حکومت پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی میں اہم تبدیلیاں لائے۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک سابق اعلیٰ اہلکار اور خارجہ امور کی کونسل کے رکن ڈینئیل مارکی کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکی انتطامیہ پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی کے حوالے سے دو گروپوں میں منقسم ہو چکی ہے۔
ڈینئیل مارکی کے بقول ایک گروپ پاکستان کے ساتھ اچھے اور خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے اور اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کا احترام کیا جائے۔ یہ گروپ ڈرون حملوں اور پاکستان میں امریکی خفیہ ادارے CIA کے مبینہ کردار پر بھی تحفظات رکھتا ہے جبکہ دوسرا گروپ پاکستان سے متعلق ایک سخت تر پالیسی کا متقاضی ہے۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں امریکی صدر باراک اوباما پر اس دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہےکہ وہ اب بلا تاخیر پاکستان سے متعلق اپنی تازہ ترین پالیسی ترجیحات کی وضاحت کریں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک