استنبول کے میئر کی سزا کے خلاف ہزاروں مظاہرین سراپا احتجاج
15 دسمبر 2022بدھ 14 دسمبر کو تر کی کی ایک عدالت نے مقبول سیاستدان اور ایردوان کے ایک مضبوط حریف امام اولو کو دو سال اور سات ماہ قید کی سزا سنا دی۔ تاہم قید کی سزا اوران پر لگائی گئی سیاسی پابندی کی اپیل کورٹ سے تصدیق ہونا ضروری ہے۔ امام اولو کو سنائی گئی سزاؤں کو اندرون و بیرون ملک جمہوری اقدار کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
استنبول میں احتجاج کا منظر
16 ملین کی آبادی والے شہر استنبول میں جمعرات کو ہونے والے مظاہرے میں ہزاروں افراد حب الوطنی سے لبریز موسیقی کی گونج میں ترک پرچم لہراتے اور جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کا ایک بڑا پوٹریٹ لے کر بلدیہ کے مرکزی دفتر پہنچے۔ بعد میں اس پوٹریٹ کو مظاہرین نے اس عمارت پر لٹکا دیا۔
ترکی میں ہیڈ اسکارف خواتین کے لباس کا ایک سیاست زدہ حصہ
مظاہروں میں شریک افراد '' حقوق، قانون اور انصاف۔۔۔ اے کے پی کے حساب کا دن بھی جلد آئے گا‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔‘‘ استنبول کے اس مظاہرے میں شریک افراد کے ان نعروں کا اشارہ ترک صدر رجب طیب ایردوان کی حکمران جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ (اے کے پی )کی طرف تھا۔ اس احتجاجی ریلی میں شرکت کے لیے استنبول سے ایک سو پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر قائم قصبے دوزجے سے آئے ہوئے 56 سالہ فیلیز کمباسر کا کہنا تھا،''حکومت خوفزدہ ہے اس وجہ سے استنبول کے میئر اکرم امام اولو کے خلاف یہ سزا سنائی گئی۔‘‘
سزا کیوں سنائی گئی؟
اکرم امام اولو کو سرکاری اہلکاروں کی مبینہ توہین کرنے کے الزام میں سزا دی گئی ۔ یہ دراصل 2019ء کا واقعہ ہے جب امام اولو نے استنبول کے میئر کا الیکشن جیتا تھا۔ انہوں نے اپنی فتح کی تقریر کے دوران مبینہ طور پر الیکشن کرانے والی باڈی کے اہلکاروں کو ''احمق‘‘ کہا تھا۔ موجودہ حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ تر ک عدالتیں صدر ایردوان کی مرضی کے مطابق فیصلے دیتی ہے جبکہ حکومت کہتی ہے کہ عدلیہ آزاد ہے۔
ترکی میں پیاز بھی سیاسی اہمیت اختیار کر گیا
دریں اثناء اکرم امام اولو نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ان کی قید کی سزا دراصل ان کی کامیابی کی سزا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،'' ہمارے ملک میں کبھی کبھی کوئی بھی کامیابی کسی نا کسی سزا کے بغیر نہیں ملتی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،'' اس بے معنے اور غیر قانونی سزا کو میں اپنی کامیابی کے انعام کے طور پر دیکھ رہا ہو۔‘‘
ترکی میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات جون 2023ء تک منعقد ہونے والے ہیں۔ یہ صدر ایردوانکے لیے اب تک کا سب سے بڑا سیاسی چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ صدر ایردوان دو دہائیوں سے ترکی پر حکمران ہیں ۔ تاہم کورونا کی عالمی وبا اور یوکرین جنگ کی وجہ سے افراط زر میں اضافے، مہنگائی اور روز مرہ زندگی کے اخراجات میں ناقابل برداشت حد تک اضافے کی وجہ سے ترک عوام میں بہت زیادہ عدم اطمینان اور بے چینی پائی جاتی ہے۔
ک م/ ش خ(رائٹرز)