1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائيلی فلسطينی تنازعے کا حل، نيا امريکی منصوبہ عنقريب

24 جنوری 2020

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے اپنا منصوبہ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے ميں بات چيت کے ليے کئی اسرائیلی رہنماؤں کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی گئی ہے تاہم کسی بھی فلسطینی رہنما کو نہیں بلایا گيا۔

https://p.dw.com/p/3WkJR
Symbolbild - Nahost-Konflikt - Gaza
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Amra

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے ديرينہ تنازعے کے حل کے لیے وہ آئندہ چند روز میں اپنے منصوبے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ مشرق وسطی میں قيام امن کے لیے امريکا کی جانب سے يہ منصوبہ لگ بھگ دو سال کی تاخیر کے بعد جاری کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں کئی سرکردہ اسرائیلی رہنما آئندہ ہفتے واشنگٹن کا دورہ کرنے والے ہیں، جہاں وہ صدر ٹرمپ سے ملاقات کريں گے۔

اطلاعات ہيں کہ اسرائیلی اور فلسطینی تنازعے کے حل کے لیے امريکی منصوبہ درجنوں صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں یروشلم شہر کے انتظامات پر اختلاف جیسے دیرینہ مسائل کے حل کے ليے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ اس منصوبے میں معاشی امور سے متعلق کئی تفصیلات پہلے ہی عام ہو چکی ہیں لیکن سیاسی نوعیت کی تجاويز کے بارے میں اب تک بہت کم تفصیلات سامنے آئی ہيں۔ مذکورہ منصوبے کے بیشتر حصوں کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور ان کے مشیر جیرڈ کشنر نے ترتیب دیا ہے۔ جمعرات کو فلوریڈا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں امن کے خواہاں ہیں۔ ’’یہ ایک عظیم منصوبہ ہے۔ یہ وہ منصوبہ ہے، جس پر حقیقتاً عمل ہو سکتا ہے۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نيتن یاہو
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نيتن یاہوتصویر: picture-alliance/S. Scheiner

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نيتن یاہو اور ان کے سیاسی حریف بینی گینٹس امکاناً اٹھائیس جنوری کو واشنگٹن پہنچ رہے ہيں۔ امکاناً ان کی امريکا آمد سے قبل ہی منصوبہ جاری کر دیا جائے گا۔ مارچ میں اسرائیل ميں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ نيتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں ایک طرح سے نظریاتی دوستی ہے اور انہوں نے وائٹ ہاؤس کا دعوت نامہ قبول کر لیا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ بینی گینٹس نے بھی يہ دعوت قبول کی ہے یا نہیں۔

ايسے تاثرات پائے جاتے ہيں کہ یہ مجوزہ امن منصوبہ بھی پچھلی امریکی انتظامیہ کی پالیسيوں کے مطابق ہی ہوگا، جو عموماً اسرائیل کے حق میں ہيں تاہم ٹرمپ انتظایہ نے اس میں اسرائیل کو مزید رعایت دینے کے لیے اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اسرائیل کی طرح فلسطین کو مکمل خود مختار ریاست تسلیم نہ کرنا، مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی تسلیم نہ کرنا اور متنازعہ شہر یروشلم میں امریکی سفارت خانے کو منتقل کرنا۔

اس منصوبے کے اعلان سے پہلے بات چیت کے لیے کسی بھی فلسطینی رہنما کو واشنگٹن دعوت نہیں دی گئی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کی انتظامیہ نے اس بارے میں فلسطینی حکام سے بات چیت کی تھی جنہوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے کہا، ’’ہم نے ان سے مختصر بات کی ہے لیکن کچھ وقفے کے بعد ہم پھر سے ان سے بات کریں گے۔ انہیں ایسا کرنے کے لیے بہت حوصلہ چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ پہلی بار منفی رد عمل ظاہر کریں کے لیکن حقیقت میں یہ ان کے لیے بہت مثبت ہے۔‘‘

فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک ترجمان نے اس پر خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’اسرائیل اور امریکی انتظامیہ کو سرخ لائن نہیں پار کرنی چاہیے۔‘‘

ج ا / ع س، نيوز ايجنسياں