اسرائیل اور امریکا کے ساتھ تمام معاہدے ختم، فلسطینی صدر
20 مئی 2020منگل 19 مئی کو راملہ میں فلسطینی قیادت کے ہنگامی اجلاس کے بعد محمود عباس نے اعلان کیا کہ اسرائیل اور امریکا کے ساتھ تمام معاہدے ختم کیے جا رہے ہیں اور آج کے بعد فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن اور فلسطینی ریاست سکیورٹی سمیت کسی چیز کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔
85 سالہ فلسطینی رہنما ماضی میں بھی اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون ختم کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ ان کے اس تازہ بیان کے عملی طور پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب خطے میں جو بھی ہوگا، دنیا کے سامنے اس کی پوری ذمہ داری فلسطینی سر زمین پر قابض اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکا پر ہوگی۔
اسرائیل میں اس ہفتے شراکت اقتدار کے معاہدے کے تحت نئی حکومت قائم ہوچکی ہے۔ وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے پہلی جولائی سے مقبوضہ غرب اردن میں قائم کی گئی یہودی تعمیرات کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اتوار 17 مئی کو اسرائیلی پارلیمان سے اپنے خطاب میں نیتن یاہو نے کہا، ''وقت آگیا ہے کہ اسرائیلی قانون اور صہیونی تاریخ کا ایک شاندار نیا باب رقم کیا جائے۔‘‘
عالمی قوانین کے تحت غرب اردن میں قائم کی گئی یہودی بستیاں غیر قانونی ہیں۔
لیکن نیتن یاہو کو اپنے متنازعہ اقدامات کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ صدر ٹرمپ نے سن 2017ء کے آخر میں امریکی پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی کرتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ فلسطین ۔ اسرائیل تنازعے کے حل کے لیے صدر ٹرمپ کے مجوزہ پلان کے مطابق مستقبل کی فلسطینی ریاست غزہ اور موجودہ غرب اردن کے ستر فیصد علاقے پر مشتعمل ہوگی اور اس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم کے مضافات میں ہوگا۔
فلسطینوں کے مطابق صدر ٹرمپ کا پلان فلسطینیوں کے ساتھ کُھلی زیادتی ہے اور ان کا موقف ہے کہ غزہ اور مشرقی یروشلم سمیت غرب اردن کا پورا علاقہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہے۔
عرب ممالک نے اسرائیل کے مجوزہ پلان کی مذمت کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں دوبارہ تشدد کی لہر بھڑک سکتی ہے۔ یورپی یونین نے بھی اسرائیل کو اس اقدام سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
ش ج / ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)