اسرائیل اور شام میں تناؤ، مشرق وسطیٰ امن عمل پر منفی اثرات
18 اپریل 2010اسرائيل کا شام پر الزام ہےکہ وہ لبنان کے عسکريت پسند اور اسرائيل مخالف گروپ حزب اللہ کو لمبے فاصلے تک مار کرنے والے ’سکڈ‘ ميزائل فراہم کررہا ہے۔ یہ میزائل اسرائيل کے اندر دور تک مار کرسکتے ہيں۔ امريکہ نے اس پر شام کو تنبيہ کی ہے۔
امريکہ کو تشويش ہے کہ اگر شام، لبنان کے حزب اللہ گروپ کو واقعی’سکڈ‘ ميزائل فراہم کررہا ہے تو اس سے اسرائيل اور حزب اللہ کے درميان طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ یہ دونوں ايک طويل عرصے سے ايک دوسرے کے دشمن ہیں۔ سکڈ ميزائل يروشلم کو بھی نشانہ بنا سکتے ہيں۔
اس سے پہلے اسرائيلی صدر شیمون پيریز نے شام پر الزام لگايا تھا کہ وہ حزب اللہ کو لمبے فاصلے تک مار کرنے والے سکڈ ميزائل فراہم کررہا ہے۔ اس قسم کے اقدام سے امريکی صدر اوباما کی، شام کے ساتھ سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش ميں رکاوٹ پڑسکتی ہے۔ اوباما انتظاميہ امريکی سينيٹ سے اس بات کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ 5 سال کی غير حاضری کے بعد ايک نيا امريکی سفير دمشق روانہ کيا جائے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اُس نے شامی صدر بشار الاسد حکومت کو اس سلسلے ميں اپنی ناراضگی سے آگاہ کرديا ہے اور يہ تنبيہ بھی کی ہے کہ اس طرح علاقے کے استحکام پر برا اثر پڑے گا۔ تاہم واشنگٹن ميں شامی سفارتخانے نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے، مقبوضہ علاقے ميں يہودی بستيوں کی تعمير، عرب علاقوں پر اسرائيلی قبضے، اُس کے ايٹمی ہتھياروں اور اسرائيل کو امريکی اسلحے کی مسلسل فراہمی کی طرف سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش قرار ديا ہے۔
شام نے جمعرات 15 اپريل کو ايک بار پھر ان اسرائيلی الزامات کی سختی سے ترديد کی کہ وہ لبنان کے عسکريت پسند شيعہ گروپ حزب اللہ کو ميزائل فراہم کررہا ہے۔ شامی موٴقف ہے کہ اسرائيل علاقے ميں کشيدگی پيدا کرنا چاہتا ہے۔
امريکی وزارت خارجہ کے ترجمان فلپ کراوٴلی نے کہا کہ اگر شام نے حزب اللہ کو سکڈ ميزائل دئے ہیں تو يہ علاقے کے فريقین کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1701 کی سراسر خلاف ورزی ہو گی۔ وہ، سن 2006 کی اُس قرارداد کا حوالہ دے رہے تھے، جس کے تحت اسرائيل اور حزب اللہ کے درميان جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس جنگ ميں لبنان کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ کراوٴلی نے يہ بھی کہا کہ سکڈ ميزائلوں کی حزب اللہ کو فراہمی سے لبنان کو سخت خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
تاہم ايک امريکی عہديدار نے نام خفيہ رکھنے کی شرط پر کہا کہ يہ واضح نہيں ہے کہ آیا ميزائلوں کی فراہمی ہو چکی ہے يا نہيں۔ ایک بات تو طے ہے کہ اسرائیل اور شام کے درمیان الفاظ کی اس جنگ سے مشرق وسطیٰ امن عمل کے راستے میں مزید دشواریاں پیش آ سکتی ہیں۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: گوہر نذیر گیلانی