1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

اسرائیل ایران پر حملہ کرنے سے باز رہے، سعودی ولی عہد

11 نومبر 2024

شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے ریاض میں اسلامی ممالک کے سربراہی اجلاس میں دیا گیا بیان دیرینہ حریفوں سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات میں بہتری کا اشارہ ہے۔ اجلاس میں غزہ اور لبنان کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/4mtPJ
سعودی دارلحکومت ریاض میں منعقدہ سمٹ کے شرکا کا گروپ فوٹو
سعودی دارلحکومت ریاض میں منعقدہ سمٹ کے شرکا کا گروپ فوٹوتصویر: ANKA

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان  نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کی خودمختاری کا احترام کرے اور ایرانی سرزمین پر حملہ کرنے سے باز رہے ۔ سعودی رہنما نے آج بروز پیر ریاض میں منعقدہ عرب اور مسلم رہنماؤں کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو اسرائیل کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ ''برادر اسلامی جمہوریہ ایران کی خودمختاری کا احترام کرے اور اس کی سرزمین کی خلاف ورزی نہ کرے۔‘‘

سعودی ولی عہد کے اس بیان کو  مشرق وسطیٰ کے دیرینہ حریف ممالک کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی قرار دیا جا رہا ہے۔ سنی مسلم اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران نے اکثر خود کو شام سمیت علاقائی تنازعات پر ایک دوسرے کے مخالف کیمپوں میں پایا ہے۔

اس سربراہی اجلاس میں پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے سربراہان اور مندوبین نے شرکت کی
اس سربراہی اجلاس میں پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے سربراہان اور مندوبین نے شرکت کیتصویر: Saudi Press Agency/Handout/REUTERS

ریاض میں ہونے والا  مسلم ممالک کا یہ غیر معمولی سربراہی اجلاس سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے بلایا گیا تھا، جس میں دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف بھی شریک ہوئے۔

ایک سال قبل بھی سعودی عرب نے ایسے ہی ایک اجلاس میں ان ممالک کو مدعو کیا تھا، جس میں غزہ کی جنگ کو ختم کرانے کے حوالے سے کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں، لیکن اس عمل کا اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

سعودی ذرائع کے مطابق، ''اس سمٹ میں مقبوضہ فلسطینی علاقے اورلبنان میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت پر غور کیا گیا ۔‘‘

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق اس عرب اسلامک سمٹ کی اہم ترجیحات میں اسرائیلی جارحیت کو رکوانا، شہریوں کا تحفظ، فلسطینی اور لبنانی عوام کو مدد فراہم کرنا، پوزیشنوں کو متحد کرنا اور بین الاقوامی برادری پر دباؤ ڈالنا شامل تھا، تاکہ وہ بھی خطے میں جاری جارحیت کے خاتمے اور وہاں دیرپا امن و استحکام کے قیام کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرے۔

ذرائع کے مطابق سعودی عرب، اردن، مصر، قطر، ترکی، انڈونیشیا، نائیجیریا اور فلسطین کے وزرائے خارجہ عرب لیگ اور اسلامی تعاون کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ مل کر غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو رکوانے اور دیرپا اور جامع امن کے حصول کے لیے فوری بین الاقوامی اقدامات شروع پر بات چیت کی ۔

سربراہی اجلاس کتنا اہم ہے؟

معروف تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی خلیجی امور کی تجزیہ کار اینا جیکب کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے برعکس آج کے اجلاس میں شریک رہنماؤں کے ذہنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہو جانے کی بات ضرور رہے گی۔

انہوں نے کہا، ''یہ سربراہی اجلاس علاقائی رہنماؤں کے لیے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کو اشارہ دینے کا بہت اہم موقع ہے کہ وہ امریکی ترجیحات کے حوالے سے کیا چاہتے ہیں۔‘‘

’’یہ پیغام ممکنہ طور پر بات چیت، کشیدگی میں کمی اور خطے میں اسرائیلی فوجی مہمات کو ختم کرنے سے متعلق ہو گا۔‘‘

برمنگھم یونیورسٹی میں سعودی سیاسی امور کے ماہر عمر کریم نے کہا کہ ریاض پیر کے اجلاس کو ٹرمپ کی آنے والی ٹیم کو یہ اشارہ دینے کے لیے استعمال کرے گا کہ وہ ایک مضبوط شراکت دار ہے۔

اجلاس میں خلیجی عرب ممالک کے رہنما بھی خصوصی طور پر شریک ہوئے
اجلاس میں خلیجی عرب ممالک کے رہنما بھی خصوصی طور پر شریک ہوئےتصویر: Abdulla Al Neyadi/UAE Presidential Court/Handout/REUTERS

انہوں نے کہا کہ پیغام یہ ہے کہ ٹرمپ ''مسلم دنیا کے نمائندے ہونے کے حوالے سے سعودیوں پر بھروسا کر سکتے ہیں،‘‘ اور یہ کہ ''اگر آپ خطے میں امریکی مفادات کو بڑھانا چاہتے ہیں، تو سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘‘

عمر کریم نے کہا کہ پیر 11 نومبر کو ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے بعد کے بیان میں ممکنہ طور پر ''اسرائیل کی شدید مذمت کی جائے گی ... جبکہ اس معاملے میں امریکہ کے زیادہ سے زیادہ کردار اور سفارت کاری پر زور دیا جائے گا۔‘‘

ہلاکتوں کا سلسلہ جاری

گزشتہ سال سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے دہشت گردانہ حملے کے ساتھ، جس کے نتیجے میں 1,206 افراد ہلاک ہوئے تھے، غزہ کی جنگ شروع ہوئی تھی۔ اسرائیل کی جوابی عسکری کارروائیوں میں غزہ میں اب تک 43,600 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔

لبنان میں قائم حزب اللہ، جسے حماس کی طرح ایران کی حمایت حاصل ہے، نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل پر حملے شروع کر دیے تھے۔ اس سال ستمبر کے آخر میں سرحد پار سے حملوں کے باقاعدہ تبادلوں میں اضافہ ہوا جس کے بعد اسرائیل نے لبنان میں اپنے فضائی حملے تیز کر دیے اور جنوبی لبنان میں اپنی زمینی فوج بھی بھیج دی تھی۔

غزہ کے شہریوں پر اسرائیل کی فوجی مہمات کے اثرات پر تنقید کے باوجود موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس بات کو یقینی بنایا کہ واشنگٹن ایک سال سے بھی زیادہ عرصے کی اس لڑائی کے دوران اسرائیل کا سب سے اہم فوجی حمایتی رہا۔

ش ر، ج ا ⁄ ع ا، ص ز، م م (اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی)

ایران پر اسرائیل کے جوابی حملے