1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسرائیل سعودی عرب کے وژن 2030 کا لازمی جزو ہے‘

18 اگست 2020

گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سعودی عرب کے لیے اس یہودی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کی راہ مزید ہموار ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3h7PF
Bildkombo | Benjamin Netanjahu | Mohamed bin Zayed | Mahmoud Abbas

گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سعودی عرب کے لیے اس یہودی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کی راہ مزید ہموار ہو گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ریاض حکومت کے لیے اسرائیل خطے میں معاشی تبدیلی کی نئی حکمت عملی کا اہم حصہ ہے۔

متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والی پہلی خلیجی ریاست ہے۔ یہ معاہدہ امریکا کی ثالثی میں طے پایا۔ اس ڈیل سے یہ امکانات بڑھ گئے ہیں کہ اب دیگر ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوشش کریں گے اور ممکنہ طور پر اسی نوعیت کے مزید معاہدے طے پائیں گے۔

وہ ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات اب تک نہیں ہیں

سعودی عرب کی خاموشی

عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان  معاہدے پر اب تک غیر معمولی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ سعودی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ ریاض حکومت فوری طور پر متحدہ عرب امارات کے نقش قدم پر نہیں چلے گی۔ تاہم مبصرین کے مطابق متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات کی بحالی بلواستہ سعودی اسرائیل تعلقات کو وسعت دے سکتی ہے۔ برطانیہ کی ایسیکس یونیورسٹی کے ایک لکچرر عزیز الغشیان کے خیال میں،''متحدہ عرب امارات کی وجہ  سے سعودی اسرائیل باہمی روابط بڑھ جائیں گے۔‘‘

لیکن سعودی عرب میں اسلام کے مقدس ترین مقامات ہیں۔ یہودی ریاست کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے سے  قبل اسے بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کی طرف سے غداری سمجھا جائے گا۔

Gaza Protest gegen Israel VAE Beziehungen
غزہ میں اسرائیل اور یو اے ای کے تعلقات کی بحالی پر سخت احتجاج۔تصویر: picture-alliance/Zuma/M. Issa

پس پردہ تعلقات

سعودی مملکت نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ خفیہ رابطے رکھے ہیں جس کی سرپرستی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کرتے ہیں، گو کہ ان کے والد شاہ سلمان ایک آزاد فلسطینی ریاست کے حمایتی   رہے ہیں۔

سعودی عرب اور اسرائیل دونوں کی ایران سے مشترکہ عداوت ہے۔ شہزادہ سلمان سعودی عرب کے معاشی تنوع کے منصوبے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری راغب کرنا چاہتے ہیں، جس میں اسرائیل کا اہم کردار ہو سکتا ہے۔

شہزادہ سلمان کے وژن 2030 کا ایک مرکزی پروجیکٹ NEOM ہے جس میں سعودی عرب کے مغربی ساحل پر 500 بلین ڈالر کی لاگت والے میگا سٹی کا قیام مرکزی حیثیت کا حامل ہے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بہت بڑے اور اہم پروجیکٹ کے لیے سعودی عرب کو مینوفکچیرنگ، بائیو ٹکنالوجی اور سائبر سکیورٹی کے میدانوں میں اسرائیلی ماہرین کی ضرورت پڑے گی۔

جرمنی کے ایک تھنک ٹینک کونراڈ آڈیناور فاؤنڈیشن کے ایک محقق محمد یاغی اس بارے میں کہتے ہیں، ''اس پروجیکٹ کے لیے اسرائیل کے ساتھ ہم آہنگی اور پُرامن تعلقات ضروری ہیں۔ خاص طور پر اگر سعودی عرب اس سٹی کو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنانا چاہتا ہے تو اس کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔‘‘

NEOM سٹی بحر احمر اور خلیج عقبہ کے پانیوں میں اسرائیل کے قصبے ایلات کے قریب تعمیر ہونا ہے۔ 

Saudi-Arabien plant Megastadt "Neom"
میگا سٹی NOEM کے پروجیکٹ پر دستخط کے بعد پرنس سلمان اور ’الوکا ‘ اور ’ارکونک‘ کمپنیوں کے مینیجنگ ڈائرکٹر کا مصافحہ۔تصویر: picture-alliance/dpa

خلیجی ریاستوں کا اسرائیلی ٹیکنالوجی پر انحصار

اپریل کے ماہ میں محقق محمد یاغی نے ایک تحقیقی مکالہ لکھا، جس میں انہوں نے واضح انداز میں اس بات پر روشنی ڈالی کہ خلیجی ریاستیں اپنے شہریوں کی نگرانی اور میزائلوں کے لیے اسرائیلی ٹیکنالوجی کی تلاش میں رہتی ہیں کیونکہ مغربی ممالک انہیں یہ ٹیکنالوجی فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں۔

سعودی عرب نے اب تک اسرائیل کے ساتھ اپنے رابطے پوشیدہ رکھے ہیں۔ جون میں واشنگٹن میں قائم سعودی سفارت خانے سے ایک توثیق شدہ ٹویٹر اکاؤنٹ میں کہا گیا تھا کہ سعودی وزرا کی کونسل نے پروجیکٹ NEOM میں اسرائیلی سائبر سکیورٹی فرم 'چیک پوائنٹ سافٹ ویئر‘کو دینے پر اتفاق کر لیا ہے۔

بعد میں جب تنقید ہوئی تو سفارتخانے نے اس دعوے کی تردید کی اور اس اکاؤنٹ سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ خلیج کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے ایک امریکی ربی مارک شنائیر نے ایک بار کہا تھا کہ سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے خود اُن سے کہا ہے کہ، ''اسرائیل وژن 2030 کے حصول کا لازمی جزو‘‘ ہے۔

حکومتی خاموشی کے باوجود سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نے بارہا اسرائیل کے ساتھ ریاض کے قریبی تعلقات کی وکالت پر مبنی رپوٹیں شائع کرکے عوامی رد عمل کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔

سعودی حکومت کی ملکیت عربی نشریاتی ادارے العربیہ کی انگریزی ویب سائٹ پر ایک اسرائیلی کنسلٹنٹ نیو شاخر نے لکھا،'' میں ایک ایسے مستقبل کی پیش گوئی کر رہا ہوں جس میں خلیجی ممالک کے مابین ایک مشترکہ ہائی ٹیک ایکو سسٹم تشکیل پائے گا، جسے اس خطے کی 'سیلیکون ویلی' کے طور پر جانا جائے گا۔‘‘

ک م،  ش ج (اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں