’اسرائیل سلامتی کونسل کی اپیلوں کو نظر انداز کر رہا ہے‘
25 مارچ 2017اقوام متحدہ کے مندوب نکولائی ملاڈینوف نے جمعے کے روز عالمی سلامتی کونسل کو بتایا کہ اسرائیل نے کونسل کی اُس اپیل پر مثبت رد عمل ظاہر کرنے کے سلسلے میں کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے، جس میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بستیوں کی توسیع کے حوالے سے تمام تر سرگرمیاں روک دینے کے لیے کہا گیا تھا۔
یہ اپیل دسمبر میں عالمی سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی اُس قرارداد میں کی گئی تھی، جس میں اسرائیل کی بستیاں تعمیر کرنے یا پہلے سے موجود بستیوں میں توسیع کرنے کی پالیسی کی مذمت کی گئی تھی اور اسے بین الاقوامی قوانین کی ’سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیا گیا تھا۔ باراک اوباما کی انتظامیہ نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے پہلی مرتبہ ایسی کسی قرارداد کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کرنے کی بجائے رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔
دسمبر کی اس قرارداد کے بعد سے پہلی رپورٹ دیتے ہوئے ملاڈینوف نے، جو مشرقِ وُسطیٰ امن عمل کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار ہیں، سلامتی کونسل کو بتایا کہ اُلٹا اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع تیز تر کر دی ہے، جس کا اندازہ بڑی تعداد میں نئی بستیوں کی تعمیر کے اعلانات اور متعارف کروائے گئے قوانین سے ہوتا ہے۔
چونکہ اس قرارداد میں اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی پابندیاں عائد کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا تھا، اس لیے اب اپنی اپیل کے نظر انداز کیے جانے پر کونسل کسی قسم کی کارروائی بھی نہیں کر سکتی تاہم کونسل اس امر پر زور بدستور دے رہی ہے کہ عالمی برادری ان بستیوں کی تعمیر و توسیع کو ناپسند اور نامنظور کرتی ہے۔
ملاڈینوف نے اسرائیل کی جانب سے بستیوں کی تعمیر و توسیع کے اعلانات میں ’جنوری کے مہینے میں دیکھے جانے والے اضافے‘ کو ’بے انتہا تشویشناک‘ قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ جنوری میں ایریا سی کہلانے والے علاقے میں، جو اسرائیل کے زیر انتظام فلسطینی علاقے مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد بنتا ہے، مجموعی طور پر ساڑھے پانچ ہزار نئے رہائشی یونٹوں کی تعمیر سے متعلق دو بڑے اعلانات کیے گئے تھے۔ مزید یہ کہ مجموعی طور پر بھی اس سال کے ابتدائی تین مہینوں میں ان بستیوں میں نئے رہائشی یونٹوں کی تعمیر کے اعلانات دو ہزار سولہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
ملاڈینوف نے کہا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ بستیوں میں توسیع کی تمام تر سرگرمیوں کو غیر قانونی اور امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ مانتا ہے۔ جواب میں اقوام متحدہ میں متعینہ اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے کہا کہ امن عمل کی راہ میں واحد رکاوٹ فلسطینیوں کی طرف سے روا رکھے جانے والا تشدد اور اشتعال انگیزیاں ہیں اور ’ہر بار اسرائیل کو ہی ہدف بنائے جانے کا سلسلہ اب ختم ہو جانا چاہیے‘۔
فلسطینی رہنما امید کر رہے ہیں کہ مشرقی یروشلم مستقبل کی اُس فلسطینی ریاست کا صدر مقام بنے گا، جس میں 1967ء میں اسرائیل کی طرف سے جبری طور پر ساتھ ملائے گئے علاقے مغربی کنارہ اور غزہ پٹی بھی شامل ہوں گے۔ تاہم ملاڈینوف نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے بستیوں میں تعمیر و توسیع کے اعلانات کے بعد مغربی کنارے کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز تر ہو جائے گا اور مستقبل کی کسی فلسطینی ریاست کے مختلف علاقوں کی جغرافیائی قربت مزید مشکل ہو جائے گی۔