اسرائیل سے اردن کے چوری شدہ نوادرات کی واپسی کا مطالبہ
4 اپریل 2011اردن میں محکمہء آثار قدیمہ کے سربراہ زیاد سعد نے کہا کہ اردن میں یہ بیش قیمت تاریخی باقیات 2005ء اور2007ء کے درمیانی عرصے میں چرائی گئی تھیں اور ملکی حکومت یہ پختہ عزم کیے ہوئے ہےکہ ان کی اردن کو واپسی کے لیے باقاعدہ قانونی کارروائی کی جائے گی۔
محکمہء آثار قدیمہ کے سربراہ زیاد سعد نے اتوار کے روز عمان میں صحافیوں کو بتایا کہ ان قیمتی تاریخی نمونوں کے بارے میں اردن کے حکام کو ایک برطانوی ماہر سے بہت سی اہم معلومات ملی ہیں۔ زیاد سعد کے مطابق، ’ان معلومات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ایک اسرائیلی تاجر نے یہ نوادرات برطانیہ کے راستے اسرائیل سمگل کیے‘۔
اردن کے اس اعلیٰ سرکاری اہلکار کے بقول ان نوادرات کی تعداد درجنوں میں بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان چوری شدہ قیمتی نمونوں میں 70 کے قریب دھاتی مصنوعات، تاریخی تحریریں اور تانبے کی ایسی پلیٹیں بھی شامل ہیں، جو شمالی اردن میں کھدائی کے دوران دریافت ہوئی تھیں اور جن کا تعلق پہلی صدی عیسوی میں بہت شروع کے مسیحی دور سے ہے۔ زیاد سعد نے صحافیوں کو بتایا، ’برطانیہ میں ان تمام مسروقہ نوادرات کا بڑا تفصیلی معائنہ کیا گیا تھا اور یہ طے ہو گیا تھا کہ یہ تاریخی نمونے شمالی اردن میں کی گئی کھدائی کے دوران دریافت کیے گئے تھے‘۔
ان تاریخی باقیات کی اردن کو آئندہ ممکنہ واپسی سے قطعء نظر عمان حکومت اسرائیل سے گزشتہ کئی برسوں سے یہ مطالبے بھی کرتی چلی آئی ہے کہ اسے بہت قدیم اور Dead Sea Scrolls کہلانے والی وہ باقیات اردن کو واپس کرنا چاہیئں، جو اردن کی ملکیت تھیں اور جو 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کے مشرقی یروشلم پر قبضے کے وقت سے اسرائیل کے پاس ہیں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ