اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلق کی سزا موت، عراقی قانون منظور
27 مئی 2022عراقی پارلیمان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس قانون کی منظوری 'عوامی امنگوں کی حقیقی آئینہ دار‘ ہے۔ عراق کی 329 رکنی پارلیمان میں 275 ارکان نے اس مسودہ قانون کی حمایت کی۔
بااثر شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے اس قانون سازی کے بعد عراقی شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس 'عظیم کامیابی‘ پر جشن منائیں۔ ان کے اس بیان کے بعد سینکڑوں شہریوں نے وسطی بغداد میں جمع ہوکر اسرائیل مخالف نعرے بازی کی۔ الصدر کی جماعت نے گزشتہ برس بغداد کی پارلیمان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس قانون کا نفاذ کیسے ممکن ہو گا؟ عراق نے سن 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے لے کر آج تک اسے ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔
اسی لیے دونوں ممالک کے مابین کبھی کوئی سفارتی تعلقات بھی نہیں رہے۔ نئے قانون کا اطلاق اسرائیل کے ساتھ کسی بھی عراقی شہری یا ادارے کی طرف سے تجارتی تعلقات رکھنے کی صورت میں بھی ہو گا۔
اس قانون سازی سے ان ملکی کمپنیوں کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، جو عراق میں رہتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط کی حامل پائی گئیں۔
امریکی رد عمل
امریکہ نے اپنے رد عمل میں اس قانون سازی پر گہری مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا، ''اس قانون سازی کے نتیجے میں نا صرف آزادی اظہار کے متاثر ہونے بلکہ سامیت مخالف فضا کے فروغ پانے کے بھی خدشات بہت واضح ہیں جبکہ یہ عراق کے ہمسایہ ممالک کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور خطے کے لوگوں کے لیے نئے مواقع پیدا کرنےکی کوششوں کے بھی برعکس ہے۔‘‘
رواں سال کے آغاز پر ایران نے نیم خود مختار عراقی کردستان کے شہر اربیل پر ایک درجن کے قریب بیلسٹک میزائل داغے تھے اور تب تہران نے کہا تھا کہ ایسا وہاں قائم اسرائیلی خفیہ اداروں کے ایک مبینہ مرکز کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے عراقی پارلیمان کی ایک تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ایرانی الزامات اس وجہ سے غلط ثابت ہوئے کہ چھان بین کے دوران اس بات کے شواہد نہیں ملے تھے کہ اربیل میں اسرائیلی خفیہ اداروں کا کوئی مبینہ مرکز موجود تھا۔
ش خ / ع ح، م م (اے پی)