اسرائیل، شام کے ساتھ مذاکرات پر تیّار
21 مئی 2009اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل یہ تسلیم کرتا ہے کہ عرب دنیا میں امن قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاہم مسئلہ فلسطین کے بارے میں ان کی حکومت اور امریکی پالیسی میں فرق بھی پایا جاتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست ضروری شرائط پوری ہو جانے پر جلد از جلد قائم ہونا چاہئےاور اسرائیل کو اس ریاست کو تسلیم بھی کرنا چاہئے۔
یروشلم کے ہوائی اڈے پر نیتن یاہو نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینی رہنماؤں اور شام کےساتھ مذاکرات پر آمادہ ہیں۔ جہاں تک اسرائیل کے شام کے ساتھ مذاکرات کا تعلق ہے تو دو ماہ قبل اقتدار میں آنے والے بائیں بازو کے سیاستدان نیتن یاہو ایک سال قبل ترکی کے تعاون سے شام کے ساتھ ہونے والے اسرائیلی مذاکرات کے بارے میں زیادہ پر جوش دکھائی نہیں دے رہے تھے تاہم اب انہوں نے خود بھی دمشق کے ساتھ اس بات چیت کے بارے میں آمادگی ظاہر کی ہے۔
اسرائیلی قیادت کے اگر شام کے ساتھ ایسے مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں تو ان سے اسرائیل کی فلسطینی قیادت کے ساتھ بات چیت کی بحالی میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ تب تک اسرائیلی وزیر اعظم سے کوئی مذاکرات نہیں کریں گے جب تک نیتن یاہو خطے کے سب سے بڑے تنازعے کے دو ریاستی حل کو اصولی طور پر قبول نہیں کرتے اور ساتھ ہی غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کے بارے میں اپنا موقف تبدیل نہیں کرتے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے بقول مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی ذمہ د اری صرف اسرائیل، یا شام کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں محض اسرائیل اور شام پر ہی نہیں بلکہ پوری عرب دنیا پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی ذمہ داری کی بناء پر علاقے میں حتمی قیام امن کے سلسلے میں عرب ریاستوں کا روئیہ بھی لازمی طور پر مثبت اور تعمیری ہونا چاہئے۔