اسرائیل میں الجزیرہ کا دفتر اور نشریات بند کرنے کا فیصلہ
7 اگست 2017اسرائیل کے وزیر مواصلات ایوب قرا کا کہنا ہے کہ ان کے لیے آزادی رائے سے سلامتی زیادہ اہم ہے۔ اس نکتے کو بنیاد بنا کر اسرائیل نے عرب دنیا کے سب سے مشہور ٹیلی وژن کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ الجزیرہ ایک طویل عرصے سے اسرائیل کو آنکھ میں ایک کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے فیس بک پیچ پر لکھا ہے، ’’الجزیرہ نیٹ ورک ’مسجد اقصیٰ کے ارد گرد‘ تشدد کو ہوا دینے سے باز نہیں آ رہا۔‘‘ اسرائیل نے قطر کے اس بین الاقوامی ٹیلی وژن پر جلتی پر تیل پھینکنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
الجزیرہ نے اسرائیلی حکومت کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یروشلم میں ہونے والے واقعات کے حوالے سے ان کی رپورٹنگ غیرجانبدارانہ تھی۔ جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل غیرجمہوری طریقے سے الجزیرہ کی آواز بند کر دینا چاہتا ہے۔
اسرائیل میں فارن پریس ایسوسی ایشن (ایف پی اے) نے بھی اسرائیلی حکومت کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ جوزف فیڈرمین کا کہنا تھا، ’’الجزیرہ ایک قابل احترام رکن ہے اور حکومت کا یہ اقدام ہمیں پریشان کر رہا ہے۔‘‘
تاہم الجزیرہ نے کہا ہے کہ وہ اس تناظر میں قانونی کارروائی کرے گا۔ اسرائیل نے ہفتے کے دن قطر کے اس نیوز چینل سے وابستہ صحافیوں کے پریس اجازت نامے بھی منسوخ کر دیے تھے، جس کے نتیجے میں اسرائیل میں اس چینل کے کام کرنے پر پابندی بھی عائد ہو گئی تھی۔ الجزیرہ کے مطابق یہ پابندی میڈیا اور آزادی رائے پر قدغن کے مترادف ہے۔
سن 1996ء میں قائم ہونے والے الجزیرہ نیٹ ورک کے خلاف اقدامات اٹھانے والا اسرائیل پہلا ملک نہیں ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی قطر سے اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
الجزیرہ ٹیلی وژن تشدد کو ہوا دے رہا ہے، اسرائیلی وزیراعظم
ان کا تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ الجزیرہ اخوان المسلمون اور دیگر اسلامی تنظیموں کو بہت زیادہ جگہ فراہم کرتا ہے۔ اسرائیل کا ہمسایہ ملک اردن پہلے ہی الجزیرہ بند کر چکا ہے۔
الجزیرہ انگلش کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے ایک سو سے زائد ملکوں میں 310 ملین سے زائد گھروں میں ان کی نشریات دیکھی جاتی ہیں۔ ستر سے زائد ممالک میں اس کے تین ہزار سے زائد ملازمین ہیں۔
مصر: الجزیرہ کے تین صحافیوں کے لیے تین برس قید کی سزا
اسرائیلی حکام کے فیصلے بعد الجزیرہ کی کیبل اور سیٹیلائٹ پر نشریات روک دی جائیں گی لیکن مکمل بندش پر ابھی وقت لگے گا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق مجاز حکام وزیر مواصلات کے اس حکم نامے کی تکمیل کے لیے ہچکچاہٹ سے کام لے رہے ہیں اور ان احکامات پر عمل درآمد اکتوبر میں پارلیمانی اجلاس کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے عرب ناظرین الجزیرہ کی نشریات نجی سیٹیلائٹ کے ذریعے بھی دیکھ سکتے ہیں اور اسے اسرائیلی حکومت روک بھی نہیں سکتی۔
بِن گوریون یونیورسٹی میں کمیونیکیشن سائنسز کے شعبے کے سربراہ پروفیسر امیت کا کہنا تھا، ’’یہ اسرائیلی حکومت کا ایک انتہائی عوامیت پسندانہ فیصلہ ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیر مواصلات کو ایسا کوئی حکم دینے کا اختیار ہی نہیں ہے۔
پروفیسر امیت کہتے ہیں کہ اگر یہ ٹیلی وژن لوگوں کو تشدد پر اکساتا ہے تو یہ فیصلہ بھی شواہد کی بنیاد پر عدالت نے کرنا ہے۔ حکومت تنہا یہ فیصلہ نہیں کر سکتی، ’’ہم ترکی نہیں ہیں۔‘‘