اسرائیل میں مخلوط حکومت کے قیام کی راہ ہموار
31 مئی 2021اسرائیل میں دائیں بازو کی انتہائی سخت گیر یمینیا پارٹی اور اعتدال پسند جماعت یش ایتید نے 30 مئی اتوار کے روز اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں ایک مخلوط حکومت کے قیام کی جد وجہد کر رہی ہیں۔ اگر یہ دونوں جماعتیں اس کوشش میں کامیاب ہوتی ہیں تو سن 2009 کے بعد پہلی بار وہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ان کی دائیں بازو کی سخت گیر قوم پرست جماعت لیکود پارٹی اقتدار سے بے دخل ہو جائے گی۔
دائیں بازو کی جماعت یمینیا کے رہنما نیفتالی بینٹ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ حزب اختلاف کی جماعت یش ایتید کے رہنما یائر لیپید کے ساتھ ایک مخلوط قومی حکومت تشکیل دیں گے۔
ان کا کہنا تھا، ''میرا ارادہ ہے کہ میں اپنے دوست یائر لیپید کے ساتھ مل کر قومی اتحاد کی حکومت تشکیل دینے کے لیے اپنی پوری کوشش کروں، تاکہ، اگر خدا کی مرضی شامل حال رہی تو، ہم مل کر ملک کو زبوں حالی سے بچا سکیں اور اسرائیل کو اپنے راستے پر واپس لا سکیں۔''
نیفتالی بینٹ کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے تاکہ اسرائیل کو گزشتہ دو برس کے دوران مسلسل پانچویں بار عام انتخابات سے بچا یا جا سکے۔ نیفتالی بینٹ ماضی میں بینجمن نیتن یاہو کے حامی رہے ہیں اور ان کے یہودی قوم پرست نظریات سے بھی متفق ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ کسی مخلوط حکومت کے قیام کا امکان بہت کم ہے۔
نیتن یاہو کا رد عمل
بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ نیفتالی بینٹ نے ملک کے سخت گیر دائیں بازو کے ساتھ فریب کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بینٹ نے لیپید کے ساتھ حکومت تشکیل نہ دینے کے وعدے کیے تھے اور اس طرح وہ اس ''صدی کے سب سے بڑے دھوکہ دہی'' کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے اپنے سخت رد عمل میں کہا کہ نیفتالی کو اسرائیل میں ''بائیں بازو کی حکومت'' تشکیل دینے میں نہیں شامل ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا، ''اس طرح کی حکومت اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست کے مستقبل کے لیے بھی خطرہ ہے۔''
تاہم یروشلم میں ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار سامی سکول کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا ممکنہ مخلوط اتحاد کو بائیں بازو کی حکومت کہنا مبالغہ آرائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان کے مطابق نیتن یاہو اس پیش رفت پر اس قدر بر ہم ہیں کہ بیان دیتے وقت آپے سے باہر ہو گئے۔
اسرائیلی سیاست کے لیے اس ممکنہ سیاسی اتحاد کا مطلب کیا ہے؟
اگر نیفتالی بینٹ اور لیپید کا اتحاد بھی حکومت سازی میں ناکام رہتا ہے اور نئے انتخابات کی بات ہوتی ہے تو اس صورت میں نیتن یاہو کو فائدہ پہنچنے کا زیادہ امکان ہے۔ لیکن اگر دونوں رہنما حکومت بنانے پر متفق ہو جاتے ہیں تو متفقہ فارمو لے کے تحت دونوں رہنما دو دو برس کے لیے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالیں گے۔
اتوار کے روز پریس کانفرنس کے دوران نیفتالی بینٹ نے متنوع کابینہ پر زور دیا اور انہوں اسرائیل میں بسے عرب فلسطینیوں کے تئیں پالیسیوں یا پھر اسرائیل فلسطین تنازعے پر اختلافات کا بھی ذکر نہیں کیا۔ تاہم انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ حکومت فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سے بھی نہیں نکلے گی۔
اسرائیل میں گزشتہ دو برس کے دوران چار عام انتخابات میں کسی بھی ایک جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ گزشتہ 23 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی تھی جس کے بعد نیتن یاہو نے حکومت سازی کی بڑی کوششیں کیں۔ یہاں تک کہ انہوں
نے ایک چھوٹی اسلام پسند عرب جماعت سے بھی بات چیت کی تاہم حکومت بنانے میں نا کام رہے تھے۔
اس کے بعد اسرائیلی صدر نے حزب اختلاف کی جماعت یش ایتید پارٹی کے رہنما یائر لیپید کو حکومت سازی کی دعوت دی تھی۔ یہ جماعت سیکولر اور متوسط درجے کے ووٹرز میں کافی مقبول ہے۔
مارچ کے انتخابات میں یش ایتید پارٹی 17 سیٹیں جیت کر دوسرے نمبر پر رہی تھی جبکہ نیتن یاہو کی جماعت لیکود پارٹی نے 30 سیٹوں پر
کامیابی حاصل کی تھی۔ 57 سالہ سابق صحافی لیپد وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں تاہم نیتن یاہو سے تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے مخلوط حکومت گر گئی تھی۔
بینجمن نیتن یاہو اسرائیل میں پندرہ برس یعنی سب سے طویل وقت تک وزارت عظمی کے عہدے پر فائز رہنے والے رہنما ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)