اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی منسوخ کر دی
4 اپریل 2014اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی دونوں ہی جانب سے بعض ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جو امن بات چیت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور امریکا نے انہیں ’غیرمددگار‘ قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بات چیت کے عمل کے قریبی ذرائع میں سے ایک نے جمعرات کو اسرائیل کی اعلیٰ مذاکرات کار زیپی لیوینی کے حوالے سے بتایا ہے کہ قیدیوں کی طے شدہ رہائی کا معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیر انصاف زیپی لیوینی نے بدھ کو فلسطینی مذاکرات کاروں کو قیدیوں کی رہائی کی منسوخی کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ فلسطینیوں نے ایک سفارتی مہم شروع کر دی ہے جو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے لیے چیلنجز کھڑے کر سکتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لیوینی نے فلسطینیوں کو اپنی مہم ختم کر کے مذاکرات کی جانب لوٹنے کے لیے کہا ہے۔
قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بحران زدہ امن عمل کو آگے بڑھانے کےلیے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔
قیدیوں کی رہائی منسوخ کرنے کے اسرائیلی اعلان کے ردِ عمل میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے اسرائیل کے اس فیصلے کو امن کی کوششوں کے لیے ایک اضافی چیلنج قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’اسرائیل کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے چوتھے مرحلے کی منسوخی نے چیلنجز کو جنم دیا ہے۔‘‘
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ قیدیوں کی رہائی کے منصوبے کی منسوخی کا اعلان کیے جانے کے کچھ دیر بعد ہی حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی سے اسرائیل کے ایک جنوبی علاقے پر چار راکٹ فائر کیے گئے۔
خیال رہے کہ راکٹ فائر کرنے کے ایسے سلسلے اور ان کے نتیجے میں اسرائیل کی جوابی کارروائیاں بھی فریقین کے درمیان ایک بڑا تنازعہ ہیں۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق غزہ پٹی میں شدت پسندوں کے پاس ہزاروں راکٹ موجود ہیں تاہم ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ کم فاصلے تک مار کر سکتے ہیں۔ غزہ میں موجود راکٹوں کی نشاندہی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ 2012ء میں آٹھ روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے دوران اسرائیل پر ڈیڑھ ہزار راکٹ فائر کیے گئے تھے۔ ان میں سے بیشتر یروشلم اور تل ابیب کے نواحی علاقوں میں گِرے تھے۔