اسرائیل کا شمالی غزہ سٹی سے سب فلسطینیوں کو نکل جانے کا حکم
11 جولائی 2024اسرائیلی حکام نے تمام فلسطینیوں کو غزہ شہر کا شمالی حصہ چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے جبکہ اس محصورعلاقے میں بمباری کی شدت بھی بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ عسکریت پسند گروپ حماس کے جنگجوؤں کا تعاقب کر رہا ہے جو غزہ کے ان حصوں میں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے حالیہ دنوں میں غزہ پر شدید حملے کیے گئے ہیں، جن میں درجنوں افراد مارے گئے۔ مبصرین کے مطابق اس اسرائیلی اقدام کا مقصد جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے دوران حماس پر دباؤ بڑھانا ہو سکتا ہے۔ امریکی، مصری اور قطری ثالث دوحہ میں اسرائیلی حکام سے بات چیت کے لیے ملاقات کر رہے ہیں ،جو غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک معاہدے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فلسطینی عسکریت پسندگروہ حماس کے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس دوران حملہ آوروں نے تقریباﹰ ڈھائی سو افراد کو اغوا بھی کر لیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کی زمینی کارروائیوں اور فضائی بمباری میں 38,000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔
غزہ میں جنگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے اور اس تنگ ساحلی پٹی کے 2.3 ملین لوگوں میں سے بیشتر کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی پابندیوں، لڑائی کی شدت اور امن و امان کی خرابی نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی کوششوں کو بھی محدود کر دیا ہے، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بھوک اور قحط کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔
غزہ پٹی میں امدادی سامان کی ترسیل ناکافی، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ لاقانونیت، لڑائی اور اسرائیلی افواج کے ساتھ مؤثر ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے کرم شالوم بارڈر کراسنگ سے غزہ میں محصور فلسطینیوں کو بہت ہی کم امداد مل رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اشٹیفان دوجارک بدھ کے روز فلسطینی شہری امور کی انچارج اسرائیلی ملٹری باڈی کے سربراہ کے اس بیان پر رد عمل دے رہے تھے، جس میں اس اسرائیلی فوجی افسر نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ اقوام متحدہ کو غزہ میں امداد وصول کرنے اور تقسیم کرنے کی اپنی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
COGAT کے نام سے جانے جانے والے اسرائیلی فوج کے اس ذیلی ادارے کے سربراہ کرنل ایلاد گورین نے کہا کہ انہوں نے غزہ میں 40,000 سے زیادہ ٹرکوں کے داخلے کی سہولت فراہم کی ہے لیکن اقوام متحدہ نے صرف 26,000 کی امداد وصول کی ہے اور ان پر لدی امدادی اشیاء تقسیم کی ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ سے ٹرکوں، افرادی قوت اور گوداموں میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوجارک نے کہا کہ اقوام متحدہ ضرورت مند انسانوں تک امداد پہنچانے کی پوری کوشش کر رہا ہے، خاص طور پر وسطی اور جنوبی غزہ پٹی میں، تاہم ان کے بقول ''وہاں سراسر لاقانونیت ہے اور مسلح تنازع جاری ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور نجی شعبے کے کچھ ٹرک کرم شالوم کراسنگ کے ذریعے امداد وصول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم دوجارک کے مطابق، ''اکثر اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے کیونکہ وہاں یا تو لوٹ مار کی جا رہی ہے یا پھر جرائم پیشہ عناصر ان پر حملے کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''ہمارے قافلوں پر اسرائیلی فورسز کی طرف سے فائرنگ بھی کی گئی ہے۔‘‘
دوجارک نے کہا کہ اس کے نتیجے میں کرم شالوم سے بہت کم امداد گزر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے غزہ میں ترجمان نے کہا، ''ہم مختلف فریقوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے زمینی حقائق زمینی حقائق ہی رہتے ہیں۔ جب تک کہ کوئی ایسی جنگ بندی نہ ہو، جو مکمل اور بلا روک ٹوک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد تک رسائی کی اجازت دیتی ہو، جو یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنا سکے اور جنگ کے خاتمے کا سبب بھی بن سکے، تب تک ہر روز امداد حاصل کرنا اور اسے مستحقین تک پہنچانا ایک بڑا چیلنج ہے۔‘‘
امریکہ اسرائیلی کو سینکڑوں بموں کی نئی کھیپ بھجوائے گا
امریکہ نے اسرائیل کو 500 پاؤنڈ وزنی بموں کی ایک نئی کھیپ بھیجنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، جسے بائیڈن انتظامیہ نے پہلے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں اسرائیلی کارروائیوں کے بارے میں خدشات کے باعث روک رکھا تھا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے مئی میں اعلان کیا تھا کہ وہ تل ابیب کو ایسے جارحانہ ہتھیار فراہم نہیں کریں گے، جنہیں اسرائیل رفح پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہو، کیونکہ واشنگٹن کو وہاں پناہ لیے ہوئے لاکھوں شہریوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے تشویش ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اس وقت اعلان کیا تھا کہ صدر بائیڈن کے خدشات کی وجہ سے امریکہ 2,000 پاؤنڈ (900 کلوگرام) کے بڑے بموں میں سے 800 اور نسبتاً چھوٹے اور فی کس 500 پاؤنڈ (225 کلوگرام) وزنی 1,700 بموں کی کھیپ اپنے پاس رکھے ہوئے ہے۔
امریکی حکام، جنہیں اس معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے کا اختیار نہیں تھا، نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ بڑے بموں کے استعمال کے حوالے سے زیادہ فکر مند تھی اور حال ہی میں اسرائیل کی جانب سے فی کس 500 پاؤنڈ وزنی بموں کی فراہمی کی درخواست پورا کرنے پر رضامند ہو گئی ہے۔
ان حکام کے مطابق امریکہ 2,000 پاؤنڈ وزنی بموں کو اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایک اہلکار نے کہا کہ امریکہ کو ان بموں کے غزہ میں استعمال سے متعلق تشویش ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ 500 پاؤنڈ وزنی بموں کی کھیپ بھجوانے کے معاملے پر عمل درآمد جاری ہے اور یہ بم ابھی تک اسرائیل نہیں پہنچے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے دو ماہ کی لڑائی کے بعد رفح میں حماس کی فورسز کو تقریباً شکست دے دی ہے۔
ش ر⁄ م ا، م م (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)