اسرائیل، یہ دنیا کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے
اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ نے حال ہی میں ایک انتہائی قدیم مسجد کی باقیات دریافت کی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دریافت اس خطے کی مسیحیت سے اسلام کی طرف منتقلی پر روشنی ڈالتی ہے۔
ایک تاریخی دریافت
اس مسجد کی باقیات اسرائیل کے رحط نامی شہر سے ملی ہیں۔ رحط عربی خانہ بدوشوں کا شہر ہے، جنہیں بدو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ باقیات اس شہر میں ایک نئے محلے کی تعمیر کے دوران ملی تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ باقیات 12 سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔
مسجد کا ثبوت
ان تاریخی باقیات میں مربع شکل کا ایک کمرہ اور مکہ کی سمت کھڑی ایک دیوار بھی شامل ہیں۔ اس دیوار میں ایک نصف کرّے کا نشان بھی ہے، جو جنوب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسرائیل کے محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق ان منفرد نشانات و آثار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت ایک مسجد کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ ماہرہن کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اس وقت اس جگہ پر چند درجن افراد ہی نماز پڑھا کرتے تھے۔
امراء کا علاقہ
مسجد سے کچھ دور ایک ’پرتعش اسٹیٹ بلڈنگ‘ کی باقیات بھی ملی ہیں، جن میں میز اور شیشے کے برتن بھی شامل ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں امیر لوگ رہتے تھے۔ تین سال قبل اسی علاقے سے ایک اور مسجد کی باقیات بھی ملی تھیں۔ وہ مسجد بھی ساتویں سے آٹھویں صدی عیسوی کے دوران تعمیر کی گئی تھی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان دونوں ’مساجد کا شمار دنیا کی قدیم ترین مساجد‘ میں ہوتا ہے۔
ادوار میں تبدیلی کے گواہ
محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں مساجد، املاک اور قریبی مکانات کی باقیات اس تاریخی تبدیلی پر روشنی ڈالتے ہیں، جو شمالی نجف کے علاقے میں ایک نئے مذہب کے طور پر اسلام کے متعارف کرائے جانے کے بعد عمل میں آئی تھی۔ اس محکمے کے مطابق، ’’ نئے مذہب اور نئی بادشاہت کے ساتھ اس خطے میں بتدریج ایک نئی ثقافت قائم ہوئی، جس نے یہاں سینکڑوں برسوں سے قائم سابقہ بازنطینی حکومت اور مسیحیت کی جگہ لے لی۔‘‘
ان مقامات کی حفاظت کی جائے گی
اس خطے میں مسلمانوں کو ساتویں صدی کے پہلے نصف حصے میں بہت سی فتوحات ملی تھیں۔ اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان مقامات کی حفاظت کی جائے گی۔ ان کو یا تو تاریخی یادگاروں یا پھر فعال مساجد میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس تصویر میں اسی جگہ کام کرنے والے مسلمان فلسطینی کارکن نماز ادا کر رہے ہیں۔