اسرائیلی اور ایرانی فٹ بالر پہلی بار ایک ٹیم میں
16 اگست 2018جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی جمعرات سولہ اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق فٹ بال کو بین الاقوامی سطح پر ایک ایسا کھیل سمجھا جاتا ہے، جو مختلف اقوام اور نسلوں کے انسانوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے اور فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا بھی اس کھیل میں نسل پرستی اور کسی بھی طرح کے امتیازی رویوں کے سخت خلاف ہے۔
دوسری طرف اولمپیاکوس پیریئس کی فٹ بال ٹیم میں ایک ایرانی کھلاڑی اور ایک اسرائیلی کھلاڑی کی باقاعدہ معاہدوں کے ساتھ شمولیت کے بعد اس کلب پر جو زبانی اور تحریری سامیت دشمن حملے کیے جانے لگے ہیں، وہ ایک ایسا مسئلہ ہیں، جس پر قابو پانا اس کھیل کے لیے بھی بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔
یونانی شہر پیریئس (Piraeus) کا یہ فٹ بال کلب ملک کے کامیاب ترین کلبوں میں شمار ہوتا ہے۔ اپنے خلاف سامیت دشمن سوچ کی مظہر تنقید کے بعد اولمپیاکوس پیریئس کو واضح طور پر کہنا پڑا، ’’اولمپیاکوس ہر طرح کے امتیازی رویوں کے خلاف ہے۔‘‘ ساتھ ہی اس کلب نے ایک ایسی مہم بھی شروع کر دی ہے، جس کے ذریعے نسل پرستی اور امتیازی رویوں کے خلاف اور باہمی برداشت، احترام اور فیئر پلے کے حق میں آواز بلند کی جا رہی ہے۔
پیریئس یونان کا بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک بندرگاہی شہر ہے، جہاں کے اس فٹ بال کلب نے کہا ہے کہ باہمی احترام اور برداشت کی جن اقدار کی فٹبال کا کھیل نمائندگی کرتاہے، اولمپیاکوس پیریئس بھی خود کو انہی اقدار کا پابند محسوس کرتا ہے۔
اس کلب کو اپنے خلاف تنقید کا سامنا اس وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے کہ اس نے اس سال جنوری سے ایران کی قومی فٹ بال ٹیم کے نائب کپتان احسان حاج صفی کو اپنی ٹیم میں شامل کر رکھا ہے اور اب اس نے اسرائیل کی قومی فٹ بال ٹیم کے کپتان بِبراس ناچو کی پروفیشنل فٹ بالر کے طور پر خدمات بھی حاصل کر لی ہیں۔
اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ شیعہ مسلم اکثریتی آبادی والا ایران اور یہودی اکثریتی آبادی والا اسرائیل دو ایسی ریاستیں ہیں، جو سیاسی طور پر آپس میں ’دشمن‘ ہیں اور جن کے کوئی باہمی سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ ایران نے زیادہ تر مسلم اکثریتی ریاستوں کی طرح ابھی تک اسرائیل کے وجود کو تسلیم بھی نہیں کیا۔ لیکن فٹ بال کے کھیل میں اب پہلی بار کسی ٹیم میں ان دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کا مل کر کھیلنا ممکن ہو گیا ہے۔
ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ملکی کھلاڑیوں کا اسرائیلی کھلاڑیوں کے خلاف کسی بھی مقابلے میں حصہ لینا بھی قانوناﹰ منع ہے جبکہ یہاں تو معاملہ آپس میں مل کر کھیلنے کا ہے۔ ایرانی اور اسرائیلی کھلاڑیوں کا اس طرح مل کر کسی دوسری ٹیم کے خلاف گول کرنا یا کوئی گول کرنے کے بعد مشترکہ طور پر خوشی کا اظہار یا گلے ملنا مستقبل کا ایسا منظر ہو سکتا ہے، جسے خاص طور پر ایران میں شاید پسند نہ کیا جائے۔
ان حالات میں اب اولمپیاکوس پیریئس کی انتظامیہ پر اس کلب کے فینز کے کئی گروپوں کی طرف سے تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ کلب انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ اسے ایران کی طرف سے بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سال کے یورپی فٹ بال سیزن کے آغاز سے قبل اس پر تہران کی طرف سے غیر معمولی دباؤ بھی ڈالا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایرانی قیادت شاید احسان حاج صفی کو اس کلب کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے پر بھی مجبورکر دے۔
یہ بات لیکن غیر واضح ہے کہ اگر 28 سالہ حاج صفی پر، جو جرمنی میں دوسرے درجے کی بنڈس لیگا کے کلب ایف ایس وی فرینکفرٹ کے لیے بھی درجنوں میچ کھیل چکے ہیں، ایرانی قیادت کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا، تو آیا وہ اسے قبول بھی کر لیں گے۔ حاج صفی نے 2017ء میں ایرانی حکام کی اس ہدایت کو بھی نظر انداز کر دیا تھا کہ وہ یورپی لیگ کے ایک میچ میں یونانی کلب پانیونیوس ایتھنز کی طرف سے کھیلتے ہوئے اسرائیلی کلب مکابی تل ابیب کے خلاف میچ میں شامل نہ ہوں۔
اب لیکن ڈی پی اے کے مطابق ایرانی وزارت کھیل نے کھل کر یہ مطالبہ بھی کر دیا ہے کہ احسان حاج صفی کو قومی فٹ بال ٹیم سے خارج کر دیا جائے۔ حاج صفی نے روس منعقدہ امسالہ فیفا ورلڈ کپ کے ابتدائی راؤنڈ میں ایران کی طرف سے تینوں میچوں میں حصہ لیا تھا اور دو میچوں میں تو وہ ایرانی ٹیم کی کپتان تھے۔
م م / ع ب / ڈی پی اے