اسرائیلی فرم کا غزہ میں ہوا سے پینے کا پانی نچوڑنے کا منصوبہ
6 جنوری 2021غزہ پٹی کے فلسطینی خود مختار علاقے پر حماس کی حکومت ہے اور اسرائیل اس فلسطینی علاقے کی 2007ء سے مسلسل ناکہ بندی کیے ہوئے ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ غزہ پٹی میں ہوا سے پینے کا صاف پانی حاصل کرنے کا یہ زیر عمل منصوبہ ایک ایسے ارب پتی روسی نژاد اسرائیلی شہری کی سوچ کا نتیجہ ہے، جس کا نام میخائیل میریلاشویلی ہے۔
فضائی واٹر جنریٹر
میخائیل میریلاشویلی ایک ایسی کمپنی کے سربراہ ہیں، جس کا نام 'واٹرجَین‘ (Watergen) ہے اور جس نے ایسے جنریٹر تیار کیے ہیں، جن کی مدد سے فضا سے پانی 'نچوڑا‘ جا سکتا ہے۔
یہ واٹر جنریٹر روزانہ پانچ ہزار لٹر سے لے کر چھ ہزار لٹر (1300 گیلن سے لے کر 1500 گیلن) تک پینے کا صاف پانی تیار کر سکتے ہیں۔ ان جنریٹرز کی روزانہ پیداوار کتنی ہو سکتی ہے، اس کا انحصارا س بات پر ہوتا ہے کہ کس دن ہوا میں پائی جانے والی نمی کی شرح کتنی ہے؟
میریلاشویلی کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی غزہ پٹی کے علاقے میں ایسے چند جنریٹر چلا تو رہی ہے لیکن اس طرح غزہ کی گنجان آباد ساحلی پٹی کے دو ملین شہریوں کی پانی کی روزانہ ضروریات کو پورا کرنا تقریباﹰ ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیرپا بنیادوں پر غزہ کے باسیوں کو صاف پانی کی کافی ثابت ہونے والی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے دیگر امکانات اور متبادل ذرائع پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔
منصوبے کی آپریٹر ایک فلسطینی تنظیم
'واٹر جَین‘ چونکہ خود غزہ پٹی کے علاقے میں کام نہیں کر سکتی، اس لیے اس نے اپنے واٹر جنریٹر چلانے کا کام شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک فلسطینی تنظیم دامور کے سپرد کر رکھا ہے۔
دامور کے لیے کام کرنے والے فلسطینی انجینیئر فاتحی شیخ خلیل کہتے ہیں، ''یہ منصوبہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن آئندہ اسے مزید ترقی دی جا سکتی ہے۔‘‘
غزہ کی تنگ ساحلی پٹی کا فلسطینی علاقہ اسرائیل اور مصر کے ریاستی علاقوں میں گھرا ہوا ہے، جس کے سامنے دور تک بحیرہ روم پھیلا ہوا ہے۔ اس فلسطینی علاقے کو برسوں سے شدید نوعیت کے اقتصادی مسائل اور بجلی کی کمی کا بھی سامنا ہے اور وہاں پانی کی قلت سے پیدا ہونے والے بحران تو گزشتہ برسوں میں شدید تر ہو چکا ہے۔
غزہ کا صرف تین فیصد پانی بین الاقوامی معیار کا
غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں زیر زمین پانی میں اتنے زیادہ نمکیات اور آلودگی کا سبب بننے والے کیمیائی مادے پائے جاتے ہیں کہ یہ پانی پینا طویل عرصے سے خطرناک ہو چکا ہے۔ اسی لیے غزہ کے شہری بوتلوں میں بند جو پانی پیتے ہیں، وہ درآمد شدہ ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ پٹی کے اپنے پانی میں سے صرف تین فیصد پینے کے صاف پانی کے بین الاقوامی معیارات پر پورا اترتا ہے۔
جہاں تک غزہ میں عمومی ماحولیاتی صورت حال کا تعلق ہے، تو اقوام متحدہ نے 2012ء میں ہی پیش گوئی کر دی تھی کہ بےتحاشا ماحولیاتی دباؤ کی وجہ بننے والے عوامل کے باعث غزہ پٹی 2020ء تک اس قابل ہی نہیں رہے گی کہ وہاں رہا جا سکے۔
سمندری پانی کو صاف کرنے کا منصوبہ
غزہ کے مقامی زیر زمین پانی میں آلودگی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ وہاں مقامی باشندوں میں گردوں میں پتھری بن جانے سے پیدا ہونے والے امراض اور اسہال کی شرح بہت زیادہ ہے، جس کا سبب غیر معیاری یا آلودہ پانی پینا ہوتا ہے۔
پنجاب میں پانی کے مسائل، اسرائیل مدد فراہم کرے گا
غزہ میں پینے کے پانی کی قلت دور کرنے کے لیے اس وقت کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، ان میں سمندری پانی میں سے نمکیات نکال کر اور اسے صاف کر کے پینے کے قابل بنانے کا ایک بہت بڑا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس وسیع و عریض واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لیے یورپی یونین بھی مالی اور تکنیکی تعاون کر رہی ہے۔
غزہ کے لیے دو واٹر جنریٹرز کا تحفہ
غزہ پٹی کے علاقے میں دامور کی طرف سے اس وقت جو دو فضائی واٹر جنریٹر چلائے جا رہے ہیں، ان میں سے ہر ایک کی قیمت تقریباﹰ 61 ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ یہ دونوں جنریٹر 'واٹر جَین‘ نے غزہ پٹی کے مکینوں کے لیے عطیہ کیے ہیں۔
ان میں سے ایک جنریٹر جنوبی غزہ میں خان یونس کے ٹاؤن ہال میں نصب کیا گیا ہے۔ ایسے جنریٹر ہوا میں نمی کو جمع اور اسے ٹھنڈا کر کے مائع پانی کی شکل دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس پانی کو فلٹر کر کے پینے کے قابل بنا لیا جاتا ہے۔
اگر ہوا میں نمی 65 فیصد تک ہو، تو ایسا ہر جنریٹر فضا سے روزانہ پانچ ہزار لٹر تک صاف پانی جمع کر سکتا ہے۔ لیکن اگر یہی فضائی نمی 90 فیصد تک ہو، تو ہر جنریٹر سے پانی کی یومیہ پیداوار چھ ہزار لٹر تک ہو سکتی ہے۔
م م / ا ا (اے ایف پی)