اسرائیلی فوج ظالم نہیں، بینجمن نیتن یاہو کی ترکی پر تنقید
15 اکتوبر 2009یروشلم میں صحافیوں سے بات چیت میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ترکی کے رویے میں تبدیلی سے انہیں تشویش لاحق ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ انقرہ حکومت کی پالیساں قیام امن میں مددگار ثابت ہوں گی، دہشت گردی کے فروغ میں نہیں۔
ترکی کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل ٹی آر ٹی پر جاری ایک نشریاتی سلسلے Palestinians in Love and in War یعنی، علیحدگی۔ فلسطینی محبت اور جنگ میں'' میں اسرائیلی فوج کو معصوم فلسطینی بچوں پر فائرنگ کرتے ہوے اور قہقہے لگاتے دکھا یاگیا ہے۔ یروشلم حکومت کی جانب سے اسی معاملے پر بطور احتجاج، ترک سفیر کی بھی اسرائیلی دفتر خارجہ میں طلبی ہوئی۔
یاد رہے کہ ترکی اور اسرائیلی کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات طویل عرصے سے قائم ہیں البتہ غزہ پٹی پر اسرائیلی حملے کے بعد سے تعلقات سردمہری اور تناو کا شکار چلے آرہے ہیں۔ حال ہی میں ترکی میں عالمی فضائی مشقیں منعقد ہونی تھیں جس میں امریکہ اور نیٹو کے بشمول اسرائیل کو بھی شرکت کرنا تھی۔ تاہم انقرہ حکومت نے اسرائیل کی شرکت پر اعتراض کیا جس پر امریکہ نے یہ مشقیں منسوخ کردیں۔ ان مشقوں میں اسرائیل کی شرکت پر اعتراض کو ترکی کی جانب سے غزہ حملے سے متعلق اسرائیل کے خلاف پہلے واضح اور عملی احتجاج کے طورپر دیکھا گیا۔
اس سے قبل جنوری میں عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر ترک وزیراعظم رجب طیب اردوان نے اسرائیلی صدر شمون پیریز کی جانب سے غزہ حملے کا دفاع کرنے پر اسٹیج سے واک آوٹ کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
حالیہ ٹیلی ویژن پروگرام سے متعلق اسرائیلی حکومت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے ترکی کا دورہ کرنے والے اسرائیلی سیاحوں پر حملے ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ان کی فوج کو بطور ظالم دکھائے جانے کو وہ کسی دشمن ملک میں بھی برداشت نہیں کرسکتے، ترکی تو دور کی بات ہے جس سے اسرائیل کے باضابطہ سفارتی تعلقات ہیں۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق کونسل میں دسمبر اور جنوری کے غزہ حملے کی تحقیقات جاری ہیں۔
رپورٹ شادی خان سیف
ادارت کشور مصطفیٰ