اسرائیلی پارلیمان تحلیل، دو برس میں چوتھی مرتبہ انتخابات
23 دسمبر 2020وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی مخلوط حکومت مقررہ وقت کے اندر پارلیمنٹ سے بجٹ کو منظور کرانے میں ناکام رہی جس کے بعد بدھ کے روز پارلیمان کو تحلیل کر دیا گیا۔ اس طرح نئے عام انتخابات ناگزیر ہوگئے ہیں۔ نئے انتخابات 23 مارچ کو کرائے جائیں گے جو گزشتہ دو برس کے دوران ملک میں چوتھے عام انتخابات ہوں گے۔
اسرائیل میں اس وقت وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی قیادت والی لیکود پارٹی اور ان کے حریف وزیر دفاع بینی گینٹز کی قیادت والی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کی مخلوط حکومت ہے۔ اس کمزور مخلوط حکومت کا قیام اس سال اپریل میں ہوا تھا۔
بجٹ کے معاملے پر پچھلے چند ہفتوں کے دوران نیتن یاہو اور گینٹز ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے پہلے سے ہی حکومت کے تحلیل ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔
سیاسی بحران کی وجہ
بینی گینٹز نے حکومت سے سن 2020 اور سن 2021 کے لیے ایک ساتھ بجٹ منظور کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ ملک میں استحکام برقرار رہے۔ تاہم نیتن یاہو نے سن 2021 کے لیے بجٹ کو منظور کرنے سے انکار کردیا تھا۔ نیتن یاہو کے حامیوں کا کہنا ہے کہ گینٹز کی یہ تجویز حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے۔ وہ نیتن یاہو کو ہٹا کر خود وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔
دونوں جماعتوں نے بالآخر ایک ایسا بل منظور کرانے کی کوشش کی جس سے انہیں بجٹ پیش کرنے کے لیے زیادہ وقت مل سکے۔ تاہم پارلیمان نے منگل کے روز اس بل کو مسترد کردیا جس کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا۔
وعدہ خلافی کا الزام
گینٹز کو مبینہ طور پر توقع تھی کہ اس سال جس معاہدے کے تحت اتحادی حکومت قائم کی گئی تھی اس کے مدنظر وہ نومبر 2021 میں نیتن یاہو کے جانشین بننے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
بینی گینٹز نے نیتن یاہو پر وعدہ خلافی کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب بہتر یہی ہوگا کہ ملک میں نئے انتخابات کرائیں جائیں۔
گینٹز نے اس سے قبل کہا تھا کہ جب سے حکومت کی تشکیل ہوئی ہے اس وقت سے ہی وزیر اعظم اتحاد کے وعدے نہیں پورے کر رہے ہیں۔ اور حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ ہمارے پاس اب کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے۔ گینٹز کا مزید کہنا تھا کہ اب اگر حکومت اور اتحاد کو بچانے کی کسی پر ذمہ داری ہے تو وہ نیتن یاہو ہیں۔ انہیں یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
نیتن یاہو کے لیے مشکل گھڑی
مارچ میں انتخابات ہونے کی صورت میں نیتن یاہو کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیوں کہ انہیں اپنے اوپر عائد بدعنوانی کے الزامات کے سلسلے میں فروری میں عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ یہ صورت حال ان کے مخالفین کے لیے سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔
البتہ اگر جون میں انتخابات ہوتے ہیں تو اس سے وزیر اعظم نیتن یاہو کو زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے کیوں کہ اس وقت تک اسرائیل کو کورونا کے ویکسین مل چکے ہوں گے اور اس کی معیشت بھی ایک حد تک بحال ہوچکی ہوگی۔
نیتن یاہو کو اپنے سیاسی حریف گینٹز کے علاوہ نیو ہوپ پارٹی کے گیڈیون سار سے بھی سیاسی چیلنج کا سامنا ہے، یہ وزیر اعظم کے ووٹ بینک کو کم کرسکتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عدم موجودگی بھی نیتن یاہو کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ نیتن یاہو اور ٹرمپ میں مضبوط تعلقات ہیں اور رخصت پذیر امریکی صدر اسرائیلی وزیر اعظم کی زبردست حمایت کرتے رہے ہیں۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی)