اسلام آباد میں نظامِ صلوة، اذانیں اور نمازیں ایک ہی وقت پر
1 مئی 2015وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں اسلام آباد کے تاجروں سے اوقات نماز کے دوران 20 سے 25 منٹ تک اپنے کاروبار بند رکھنے کی اپیل بھی کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نمازوں کے اوقات میں سرکاری دفاتر میں وقفہ بھی ہو گا۔ نظام صلوة کے نفاذ کا اعلان مذہبی امور اور بین المذاہبی ہم آہنگی کے وفاقی وزیر سردار محمد یوسف نے آج یکم مئی کے روز شہر کی شاہ فیصل مسجد میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امام کعبہ شیخ خالد حامد الغامدی بھی موجود تھے۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا کہ ملک میں اسلامی اقتدار کو فروغ دینا اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آئین کا تقاضا بھی ہے کہ حکومت اسلامی اقتدار کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ سردار یوسف نے کہا، ’’پہلے مرحلے میں اسلام آباد میں نظام صلوة نافذ کر دیا گیا ہے۔ میں تاجروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اوقات نماز کے دوران 20 سے لے کر 25 منٹ تک اپنے کاروبار بند رکھیں۔‘‘
سردار محمد یوسف نے بتایا کہ اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں تمام مسالک کی مساجد میں نماز فجر کی اذانیں ایک ساتھ ہونے کے بعد 30منٹ کے بعد باجماعت نمازیں ادا کی جایا کریں گی۔ موسم سرما میں ظہر کی اذان سہ پہر ایک بجے دی جائے گی اور نماز کی ادائیگی سوا بجے ہو گی۔ اس کے برعکس موسم گرما میں ظہر کی اذان کا وقت سوا بجے اور باجماعت نماز کا وقت ڈیڑھ بجے سہ پہر ہو گا۔
اسی طرح جمعے کی پہلی اذان بعد دوپہر پون بجے ہوا کرے گی اور تمام مساجد میں نماز جمعہ ڈیڑھ بجے ادا کی جایا کرے گی۔ وفاقی وزیر کے بقول اسلام آباد میں آئندہ عصر کی بیک وقت اذانوں کے بعد نماز کی ادائیگی ٹھیک دس منٹ بعد ہوا کرے گی جبکہ مغرب کی اذان غروب آفتاب کے پانچ منٹ بعد دی جایا کرے گی اور اس کے دو منٹ بعد نماز مغرب ادا کی جائے گی۔ عشاء کی اذانوں کے لیے مغرب سے ٹھیک پونے دو گھنٹے بعد کا وقت مقرر کیا گیا ہے نماز عشاء اذان کے 15 منٹ بعد ادا کی جایا کرے گی۔ وزیر مذہبی امور نے جب فیصل مسجد میں جمع جمعے کے نمازیوں سے اپنے خطاب میں اس نظام صلوۃ کا اعلان کیا تو وہاں موجود نمازیوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس سولہ دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو قومی پلان تشکیل دیا تھا، اس میں مختلف مسالک کے مابین ہم آہنگی کے لیے مسلمانوں کی تمام مساجد میں ایک ہی وقت پر اذان اور نماز کی ادائیگی کا نظام متعارف کرانے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔
پاکستان کے جنگ میڈیا گروپ سے وابستہ مذہبی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی سبوخ سید کے مطابق نظام صلوۃ کا یہ منصوبہ فی الحال اسلام آباد میں آزمائشی طور پر شروع کیا جا رہا ہے، جو ایک طرح سے حکومت کا ’نمائشی اقدام‘ بھی لگتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سبوخ سید نے کہا، ’’اصل مسئلہ جمعے کے خطبات میں مختلف مسالک کی مساجد میں کی جانے والی تقاریر ہیں، جن سے فرقہ ورانہ منافرت جنم لیتی ہے۔ حکومت کو اس اصل مسئلے کی طرف توجہ دینا چاہیے۔‘‘
اسی دوران پاکستانی حکومت کی جانب سے ابھی حال ہی میں حج کا مذہبی فریضہ ادا کرنے کے لیے سعودی عرب جانے والے عازمین کے لیے لازمی فارم میں شیعہ مسلک کے درخواست دہندگان کی نشاندہی سے متعلق متعارف کرایا گیا خانہ بھی ملک میں عوامی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ شیعہ مسلک کے علماء اس تبدیلی کی مذمت کر رہے ہیں۔ اس بارے میں سبوخ سید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس فیصلے کی کچھ انتظامی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ شاید حج فارم میں یہ نیا خانہ عازمین حج کے میزبان ملک کے کہنے پر شامل کیا گیا ہو۔ لیکن اس کے فرقہ ورانہ مضمرات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
دریں اثناء امام کعبہ شیخ خالد حامد الغامدی نے اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد میں آج جمعے کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے۔ دین کی بنیاد تفرقے میں نہیں بلکہ ایک ہونے میں ہے۔ اسلام اتحاد و اتفاق کا درس دیتا ہے۔ امام کعبہ نے کہا، ’’اسلام دنیا کا بہترین اور عظیم مذہب ہے، جو اخلاقیات، انصاف، اخوت، محبت اور اجتماعی وحدت کا علمبردار بھی ہے۔ اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ تفرقے اور کسی بھی عصبیت میں نہیں پڑنا چاہیے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد میں جمعے کا خطبہ دیتے ہوئے امام کعبہ نے زور دیا کہ مسلمانوں کو اپنے باہمی اختلافات کو اسلامی بنیادوں پر حل کرنا ہے۔ اس موقع پر پاکستانی صدر ممنون حسین بھی مسجد کے نمازیوں میں شامل تھے۔ بعد ازاں اسلام آباد کے شہریوں نے امام کعبہ کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی اور اجتماعی دعا میں امت مسلمہ کی بقاء اور باہمی اختلافات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے دعا کی گئی۔
امام کعبہ گزشتہ ہفتے سے پاکستان کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے مختلف مکاتب فکر کے مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے علاوہ سیاسی شخصیات سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ سرکاری طور پر ان کا یہ دورہ خیرسگالی کے لیے ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ امام کعبہ کی مسلمانوں میں مذہبی حیثیت دیکھتے ہوئے سعودی عرب کے حکمرانوں نے انہیں یمن کے معاملے پر ریاض حکومت کے موقف کے لیے ہمدردی میں اضافے کی خاطر پاکستان بھیجا ہے۔