اسلام آباد کا بحرین میں پاکستانیوں کی حفاظت کا مطالبہ
15 مارچ 2011بحرین کے دارالحکومت مناما میں مقیم صحافی زاہد شیخ نے بتایا کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد بحرین کی پولیس اور دفاعی افواج میں کام کر رہی ہے۔ اسی سبب مظاہرین انتقاماﹰ وہاں کام کرنے والے عام پاکستانی مزدوروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ تشدد کے زیادہ تر واقعات مناما کے علاقوں شیخ عبداللہ روڈ اور مرکز نعین میں پیش آئے۔
زاہد شیخ نے بتایا، ’’پاکستانی سفارتخانے میں قائم مقام سفیر اورنگزیب نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ افضل ملک اپنے ایک دوست کے ہمراہ گھر سے خریداری کے لیے نکلا تھا، تو سامنے سے آنے والے مقامی شیعہ مظاہرین نے شلوار قمیض میں ملبوس ان دونوں پاکستانیوں کو گھیر لیا اور انہیں تلواروں، زنجیروں اور چاقوؤں سے تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں افضل ملک موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔‘‘
ساڑھے آٹھ لاکھ کی آبادی والے ملک بحرین میں رجسٹرڈ پاکستانیوں کی تعداد 55 ہزار ہے جبکہ غیر اندراج شدہ پاکستانیوں کو ملا کر یہ تعداد 80 ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے۔ بحرین کے دارالحکومت مناما میں چودہ فروری سے ملک میں بادشاہت کے مخالف مظاہرین پرل سکوائر اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں احتجاج کر رہے ہیں۔
مناما میں مقیم ایک اور پاکستانی شہباز خان (فرضی نام) نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستانی یہاں شدید خوف و ہراس کے عالم میں اپنے گھروں میں محصور ہو کر بیٹھے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے بھی پاکستانی شہریوں کی حفاظت کے لیے مبینہ طور پر کوئی اقدامات نہیں کیے گئے بلکہ ’سفارتخانے کا عملہ پاکستانیوں کو اقوام متحدہ کے دفاتر سے رابطے کا مشورہ دیتا رہا ہے‘۔
شہباز خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’سفارت خانے کا عملہ چھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ جب ان سے کہا گیا کہ پاکستانیوں کو سکیورٹی مہیا کریں، تو ایمبیسی والوں نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں اور یہاں پر ایک پاکستانی جو کہ بحرین کی شہریت رکھتے ہیں، اور بہت بڑے کاروباری ہیں، ان کا نام ساجد شیخ ہے۔ ایمبیسی نے ان کی مدد سے مناما میں پاکستان کلب میں کچھ کمروں اور کھانے پینے کا انتظام کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی سکول ہے، عیسیٰ ٹاؤن میں، وہاں بھی متاثرین کے لیے رہائش کا بندوبست کیا گیا ہے۔ لیکن سکیورٹی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا اوربتایا گیا ہے کہ اپنا تحفظ آپ خود کریں۔‘‘
شہباز خان کے مطابق مظاہرین پاکستانیوں پر حملوں سے قبل ان کے پاس موجود سفری دستاویزات اور دیگر کاغذات چھین لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’سری لنکا، بنگلہ دیش ، بھارت اور یمنی شہریوں کے مقابلے میں پاکستانیوں کو خصوصی طور پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور اس کی وجہ ان کی بحرین کی دفاعی فورسز میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔‘‘
صحافی زاہد شیخ کے مطابق تشدد میں زخمی ہونے والے پاکستانیوں کو سول ہسپتالوں میں طبی امداد فراہم کرنے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’زخمی ہونے والے زیادہ تر پاکستانی بحرین کی افواج کے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں‘۔
شہباز خان کے مطابق مظاہرین کی جانب سے مبینہ طور پر پانچ سے سات افراد کو اغواء کرنے کی بھی اطلاعات ہیں لیکن خوف و ہراس کی وجہ سے لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ انتہائی کم ہے۔ اسی لیے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اغوا شدہ افراد پاکستانی شہری ہیں یا کسی اور ملک کے باشندے۔ بحرین میں مقیم زیادہ تر پاکستانیوں کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے، جو وہاں کی پولیس میں ملازم ہیں جبکہ پاکستانی انجینئروں اور ڈاکٹروں کی بھی بڑی تعداد وہاں خدمات انجام دے رہی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ بحرین کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور امید ہے کہ بحرین کی قیادت اور عوام جلد موجودہ صورتحال پر جلد قابو پا لینے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ دفتر خارجہ نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا کہ بحرین میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو نکالنے کے لیے حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: مقبول ملک