اسلام کا چہرہ مسخ نہیں ہونے دیں گے، سعودی ولی عہد
26 نومبر 2017اتوار کے دن ریاض میں چالیس مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کی نمائندوں کے ایک اہم اجلاس میں سعودی عرب کے کراؤن پرنس اور وزیر دفاع محمد بن سلمان نے کہا کہ دہشت گردوں کا تعاقب کیا جائے گا اور انہیں ختم کر دیا جائے گا۔ اس اتحاد کی یہ پہلی باضابطہ میٹنگ تھی، جس کی قیادت پاکستان کے سابق فوجی سربراہ راحیل شریف کو سونپی گئی ہے۔
’سعودی عرب کو اعتدال پسند بنانے کا وعدہ کرتا ہوں‘
اس پہلے اجلاس کی صدارت کرنے والے محمد بن سلمان نے کہا کہ گزشتہ کچھ سالوں سے کئی ممالک میں دہشت گردی کے نیٹ ورک قائم ہیں اور ان گروہوں سے نمٹنے کی خاطر ان ممالک کو بہتر طور پر رابطہ کاری کرنا چاہیے۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب مصری علاقے سینائی میں ہوئے ایک حملے میں 305 افراد مارے گئے۔ بتیس سالہ محمد بن سلمان نے کہا، ’’اجازت نہیں دی جائے گی کہ مقدس مذہب کی تعلیمات کو مسخ کیا جائے اور لوگوں کو خوفزدہ کیا جائے۔‘‘
محمد بن سلمان: ایک اصلاحات پسند لیکن سخت گیر لیڈر
سعودی عرب نے سن دو ہزار پندرہ میں مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس اتحاد کا مقصد دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن بنانا ہے۔ تاہم اس اتحاد میں مشرق وسطیٰ کے ایک اہم ملک ایران سمیت شام اور عراق کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس باعث کئی سکیورٹی مبصرین نے اس اتحاد کی کامیابی اور شفافیت کے حوالے سے سوالیہ نشانات بھی اٹھائیں ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ شام اور عراق کی حکومتیں ایران کے نزدیک قرار دی جاتی ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ یمن اور شام میں خانہ جنگی کے حوالے سے سعودی عرب اور ایران کے مابین شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ لبنان میں مبینہ ایرانی مداخلت پر بھی سعودی عرب اور اس کے دیگر سنی اتحادی ممالک تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
اتوار کے دن ریاض میں منعقدہ اجلاس کے دوران اس عسکری اتحاد کے کمانڈر انچیف راحیل شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کی کوشش ہو گی کہ رکن ممالک بہتر طریقے سے رابطہ کاری کرتے ہوئے خفیہ معلومات کے تبادلے اور دیگر انتظامی معاملات میں تعاون کریں اور ہر ملک انسداد دہشت گردی کی خاطر اپنا کردار ادا کر سکے۔