اسلامک اسٹیٹ سے نمٹنے کے لیے ابھی تک حکمت عملی نہیں، اوباما
29 اگست 2014امریکی صدر باراک اوباما نے یہ اعتراف ایسے وقت میں کیا ہے، جب بالخصوص شام میں اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ ایسے امکانات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ کیا امریکی فضائیہ شام میں ان شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے کر سکتی ہے۔
جمعرات کے دن وائٹ ہاؤس میں اوباما نے کہا، ’’ہمارے پاس ابھی تک کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے البتہ واضح کیا کہ وہ وزیر خارجہ جان کیری کو مشرق وسطیٰ روانہ کر رہے ہیں تاکہ وہ وہاں علاقائی سطح پر ان جنگجوؤں کے خلاف محاذ بنانے کے لیے حمایت حاصل کر سکیں۔
دوسری طرف امریکی صدر کے اس بیان پر، کہ ان کے پاس ان جنگجوؤں سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے، اپوزیشن ری پبلکن پارٹی نے شدید تنقید کی ہے۔ جارجیا سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن سیاستدان ٹام پرائس نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ’’اسلامک اسٹیٹ سے مقابلے کے لیے ہمارے پاس ابھی تک کوئی حکمت عملی نہیں۔ یقیناﹰ یہ ناقابل قبول ہے۔‘‘
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان جوش ارنسٹ نے اوباما کے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر عسکری آپشنز کی بات کر رہے ہیں لیکن ان شدت پسندوں سے مقابلہ کرنے کے لیے سفارتی سطح پر واشنگٹن حکومت کے پاس ایک مربوط اور واضح منصوبہ موجود ہے۔
شام میں اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں امریکی صحافی جیمز فولی کی ہلاکت کے واقعے کے بعد عوامی سطح پر غم و غصے کے نتیجے میں امریکی حکومت نے وہاں بھی ان جنگجوؤں کے خلاف عسکری کارروائی پر غور شروع کر دیا ہے۔ تاہم ابھی تک امریکی فضائیہ صرف عراق میں ہی فعال ان جہادیوں کے خلاف محدود فوجی کارروائی کر رہی ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے بتایا ہے کہ صدر اوباما نے اپنے وزیر دفاع چک ہیگل کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ وہ شام میں بھی ان شدت پسندوں کے خلاف مؤثر کارروائی کے مختلف متبادل راستوں پر مبنی ایک حکمت عملی ترتیب دیں۔
بتایا گیا ہے کہ اس حکمت عملی میں صرف عسکری آپریشن پر ہی توجہ مرکوز نہیں کی جائے گی بلکہ شام میں اعتدال پسند سنی باغیوں کی حمایت بھی حاصل کی جائے گی۔ جبکہ عراق میں ان انتہا پسندوں سے نمٹنے کے لیے شیعہ اور سنی گروہوں کو ایک متحدہ حکومت بنانے کے لیے راضی کیا جائے گا۔
دوسری طرف شام میں اسلامی شدت پسند اپنی کارروائیوں کو بڑھاتے جا رہے ہیں۔ جمعرات کے دن ان جنگجوؤں نے مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں کے علاقے میں تعینات اقوام متحدہ کے امن مشن کے 43 اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا جبکہ ان کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے 81 دیگر اہلکار وہاں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
اسی طرح اپنی پرتشدد حملوں میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے متعدد شامی فوجیوں کو بھی ہلاک کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں عالمی سطح پر پائی جانے والی تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ یہ جنگجو عراق اور شام کے مزید علاقوں پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں۔