1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹیٹ کا ساتھ ، ’جیل یا موت‘

عدنان اسحاق3 فروری 2015

گزشتہ کچھ ماہ کے دوران اسلامک اسٹیٹ میں دنیا بھر سے نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہوئی ہے۔ آئی ایس کے ایک سابق جنگجو کے مطابق یہ تنظیم جہاد کے نام پر بے وقوف بنا رہی ہے اور اس سے چھٹکار حاصل کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔

https://p.dw.com/p/1EUxR
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Hannon

تیونس سے تعلق رکھنے والے غیث کو اسلامک اسٹیٹ کا ساتھ چھوڑے ایک سال سے بھی زائد کا عرصہ ہو گیا ہے اور وہ آج بھی خوف کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وہ ایک برس پہلے تک شام میں آئی ایس کا ساتھ دے رہا تھا۔ اب وہ مستقل طور پر تمباکونوشی کی لت میں مبتلا ہو چکا ہے۔ وہ اندھا دھند قتل و غارت گری کے واقعات بیان کرتا ہے۔ اس نے اپنی آب بیتی کے دوران بتایا کہ آئی ایس کی جانب سے کس طرح خواتین ریکروٹس کے ساتھ زیادتی کی جاتی تھی اور انہیں سونے اور کھانے پینے کے لیے کوئی مناسب جگہ تک میسر نہ تھی۔

غیث کا مکمل نام دانستہ طور پر خفیہ رکھا گیا ہے۔ وہ بتاتا ہے ’’جہاد کے بارے میں وہ جو کچھ بھی کہتے تھے، زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف تھے‘‘۔

غیث جنت کی لالچ میں جہاد کے لیے شام گیا تھا۔ اس کے بقول شام پہنچنے پر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کس طرح خواتین ساتھیوں کو جنسی تعلق پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ ’’ کچھ واقعات میں تو ایک ایک رات کے لیے مختلف مردوں کے ساتھ ان کی شادی بھی کرا دی جاتی تھی۔ یہ سب کچھ زبردستی ہوتا تھا کیونکہ انہیں(خواتین) کو علم تھا کہ انکار کرنے پر انہیں قتل کر دیا جائے گا۔‘‘ غیث کی طرح آئی ایس کا ساتھ چھوڑ کر آنے والے کئی دیگر افراد نے بھی اسی طرح کی کہانیاں سنائی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کیمپوں میں موجود کچھ افراد تو اس طرح کے رویے کو اسلام میں جائز قرار دیتے تھے۔

IS droht mit Ermordung von zwei Geiseln aus Japan 20.01.2015
تصویر: picture-alliance/AP Photo

وہ مزید بتاتا ہے کہ آئی ایس میں شامل ہونے والے نئے افراد کو بہت جلد ہی اندازہ ہو جاتا تھا کہ اس تنظیم میں شامل ہونا جتنا آسان ہے اسے چھوڑنا اتنا ہی مشکل ہے۔ غیث کے بقول اگر کوئی فرار ہونے میں کامیاب بھی ہو جائے تو اس کی کیفیت ایسی ہو جاتی تھی کہ جیسے وہ کسی بھنور میں پھنس گیا ہے۔ ’’ ایک جانب اپنے سابق جنگجو ساتھیوں کا خوف تو دوسری طرف سلامتی کے اداروں کا ڈر۔‘‘ آئی ایس کا ساتھ دے کر واپس آنے والے ہزاروں شمالی افریقی یا یورپی باشندوں کی آج کل یا تو کڑی نگرانی کی جا رہی ہے یا پھر وہ جیل میں ہیں۔

غیث نے بتایا کہ اس نے قتل کے کچھ واقعات میں شامل ہونے سے انکار کر دیا، جس کے بعد جنجگو اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔’’ ایک رات کچھ جنگجوؤں نے میرے گلے پر خنجر رکھ کر مجھ سے قرآن کی کچھ آیات سنیں اور جنگ کے طریقہ کار کے بارے میں پوچھا کیونکہ وہ میری وفاداری جاننا چاہتے تھے۔‘‘

غیث شامی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے خود کو آئی ایس کے چنگل سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوا۔ شام میں اسے چار روز تک قید میں رکھا گیا اور بعد میں اسے اس کے والدین کے پاس بھیج دیا گیا۔ تاہم ہر ایک کی قمست غیث کی طرح نہیں ہوتی ایسے بہت سے نوجوان ہیں، جو آئی ایس کے نرغے سے نکلنے کی کوشش کے دوران اپنے ہی کمانڈروں کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔