اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں جرمنی شامل ہو گا
4 دسمبر 2015اس بارے میں آج پارلیمان کی ایوان ذیلی میں ہونے والی رائے شماری میں 598 ارکان پارلیمان میں سے 445 ووٹ اس کے حق میں جبکہ 146 مخالفت میں دیے گئے۔ اس طرح پالیسی سازوں کی اکثریت نے اس بل کومنظور کر لیا ہے اُس کے تحت جرمنی اپنے چھ ٹرناڈو جاسوسی طیارے، فریگیٹ یا لڑاکا جنگی بحری جہاز اور 12 سو تک فوجیوں پر مشتمل دستہ شام بھیجے گا۔ جرمن فریگیٹ فرانسیسی طیارہ بردار جہاز چارلس ڈی گال کی حفاظت میں مدد کرے گا اور ہوائی جہازوں میں ایندھن بھرنے کا کام بھی انجام دے گا۔
شام کی جنگ یں جرمنی کی براہ راست فوجی شمولیت دراصل پڑوسی ملک فرانس کی اُس اپیل کا جواب ہے، جس میں فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ نے برلن حکومت سے پیرس کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد مدد اور مزید تعاون کی درخواست کی تھی۔
پیرس حملوں میں 130 افراد کی ہلاکتوں کے بعد جرمنی نے اس فوجی مشن کو گرین سگنل دیا ہے جو موجودہ دور میں جرمنی کا سب سے بڑا غیر ملکی فوجی مشن یا جرمن فوج کی سب سے بڑی تعیناتی ہو گی۔
پیرس میں ہونے والی دہشت گردی نے فرانس کو مجبور کر دیا کہ وہ یورپی یونین کے ممبر ممالک سے مطالبہ کرے کے وہ شام اور عراق سے داعش یا دہشت گرد جہادی تنظیم آئی ایس کا صفایا کرنے میں زیادہ سے زیادہ فوجی معاونت کرے۔
جرمنی کے یہ بارہ سو فوجی شام بھیجے جائیں گے، جو معلومات کے حصول اور تبادلے کے علاوہ دیگر معاملات میں داعش کے خلاف لڑنے والے ممالک کے ساتھ تعاون کریں گے۔
واضح رہے کہ برطانیہ نے گزشتہ روز یعنی جمعرات ہی کو امریکی قیادت میں شام میں جاری بمباری کی مہم میں شمولیت اختیار کی ہے۔ جہادیوں کو پسپا کرنے کے لیے اُن کے خلاف کارروائیوں میں تیزی اور شدت لانے کے مطالبے میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے اتحادی فوج کی طرف سے آئی ایس کے قبضے والی ایک آئل فیلڈز کو بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما جو اپنے بری فوجیوں کی تعیناتی کو مسلسل مسترد کرتے رہے ہیں نے بھی اب 100 اسپیشل فورسز کو عراق بھیجنے پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔ اس منظوری میں شام کے اندر حملے کرنا بھی شامل ہے۔
اگست 2014 ء سے اب تک آئی ایس کے خلاف کارروائیوں کے لیے بننے والے اتحاد میں 60 ممالک شامل ہیں۔ چند مغربی ممالک کی طرف سے شام میں جاری فوجی کارروائیوں میں شرکت سے متعلق محتاط رویہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ ان ممالک کی طرف سے اس بارے میں جائزہ لیا جا رہا ہے کہ شام میں ملٹری ایکشن آخر کار صدر بشارالاسد کی حکومت کے حق میں نہ ثابت ہو۔ تاہم یہ تمام تحفظات اُس وقت ایک طرف رکھ دیے گئے جب پیرس کے خونریز حملوں نے یورپ سمیت پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
جرمن پارلیمان کی طرف سے شام میں جرمنی کی براہ راست فوجی مداخلت کے فیصلے پر جہاں اپوزیشن کی ماحول پسند گرین پارٹی اور بائیں بازو کی دی لنکے نے اس حکومتی منصوبے کی مخالفت کا اعلان کیا وہاں ایک عوامی سروے کے نتائج سے پتہ چلا کہ اس میں شامل ہونے والے جرمن باشندوں میں سے 58 نے شام میں جرمنی کی فوجی شمولیت کے حق میں جبکہ 37 فیصد نے اس کے خلاف رائے دی۔