روح جو نظر نہیں آتی وہ ہم مرنے کے بعد بن جائیں گے۔ نفس کو ضمیر سمجھا جاتا ہے، جو اچھے برے کی تمیز سکھائے اور عقل جو دنیاوی زندگی کے حساب کتاب اور فیصلے کرے۔
قدیم مسلمان دانشوروں کے مطابق قلب، روح، نفس اور عقل کا مجموعہ انسان کی نفسیات کہلاتا ہے، جو جسم کی طرح بیمار بھی پڑ جاتا ہے اور جسم کے ساتھ ساتھ بھی بیمار پڑتا ہے۔ یعنی نفسیاتی صحت اور جسمانی صحت کا انحصار ایک دوسرے پہ ہے۔
بے چینی، بے خوابی، خوف، ڈپریشن، مایوسی، بے وجہ صدمہ، جارحانہ رویہ، جنون، دیوانگی یہ نظر نہ آنے والی وہ بیماریاں ہیں، جو انسان کی نفسیات میں خرابی کا پتا دیتی ہیں، یہ نفسیاتی بیماریاں جسم کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں۔
دنیا کو نفسیات کے جدید علوم کی راہ مغرب نے دکھائی۔ مشہور ترین نام سگمنڈ فرائیڈ کا لیا جاتا ہے۔ انیسویں صدی سے مغرب میں مینٹل اسائلم سینٹرز کا رواج بھی زور پکڑا اور کلینیکل سائیکالوجی کا آغاز ہوا، جہاں جدید مغربی علوم اور تحقیق کی بنیاد پہ نفسیاتی امراض کا علاج ہونے لگا۔ اس علاج میں دوا اور سائیکو تھیراپی دونوں تھیں لیکن اس طریقہ علاج میں مذہب اور روحانیت کو بیچ سے نکال دیا گیا تھا۔
پھرانیس سو پچاس کے بعد دنیا میں سفر کے ذرائع آسان ہوئے تو مغرب کے محققین نے مشرق کی طرف بھی جھانکا۔ وہاں انہیں بدھ مت اور ہندو مت کے آشرم نظر آئے، جہاں آسن باندھے سادھو اور یوگی ملے۔
بیسویں صدی کے آخر میں ذہنی اور روحانی سکون کے لیے آشرم ایک فیشن کی شکل اختیار کر گئے۔ یورپ، امریکہ اور برطانیہ میں سینکڑوں کی تعداد میں ایجنسیاں کھلیں، جو قلبی سکون کے متلاشیوں کو تاریخ دیا کرتی تھیں کہ وہ گروپ کی شکل میں بھارت کے مشہور آشرم کب جا سکتے ہیں۔
گورو جی کے آشرم تو انٹرنیشنل یوگیوں کے لیے اب ہاٹ اسپاٹ نہیں رہے مگر وہ دور دنیا کو یوگا تھیراپی کی شکل میں ایک اچھی روایت دے گیا۔ ان سادھوں نے نفسیات کے علم پہ ایک احسان اور بھی کیا، وہ تھا علم ِ نفسیات کو ایک بار پھر مذہب اور روحانیت سے جوڑنا تھا۔
جدید علوم نفسیات اور نفسیاتی بیماریوں کے علاج میں مسلمان سائنسدانوں کا نام خال خال ہی لیا جاتا ہے۔
کمال ہے کہ سائیکو انالیسسز اور سائیکو تھیراپی کی جو تھیوری سیگمنڈ فرائیڈ نے انیسویں صدی میں دی، وہ نویں صدی کے مسلمان طبیب الطبری اور الرازی اپنے مریضوں پہ پریکٹس کر چکے تھے۔گیارہویں صدی میں حکیم ابن ِ سینا اس پہ بعد از تحقیق کتاب لکھ چکے۔
ڈپریشن پہ ال کندی اور البلخی نے نویں صدی میں مقالے لکھے، جس میں علامات، تشخیص اور علاج موجود تھا۔
سوشل سائیکالوجی پہ مشہور ماہر نفسیات نارمین ٹرپلٹ نے بیسویں صدی میں آکر کتاب لکھی جبکہ اس موضوع پہ ال فارابی اور ابن ِ خلدون چودہویں صدی میں گہرا مطالعہ کرکے ورق سیاہ کر چکے تھے۔
میرا مقدمہ یہ نہیں کہ نفسیات کے میدان میں مغرب بہت بعد میں پہنچا بلکہ اصل رونا تو یہ ہے کہ مسلمان دانشوروں کی جانب سے علوم نفسیات میں اتنی مضبوط بنیاد رکھنے کے باوجود اسلامک سائیکالوجی پنپ نہیں سکی۔ اسلامک سائیکالوجی کا علم وہیں کہیں دسویں گیارہویں صدی کے کُتب خانوں کی گرد میں اٹا رہ گیا۔
پندرہویں صدی کے بعد علوم نفسیات کی جدید تحقیق اور علاج و پریکٹس کے حوالے سے مسلم دنیا میں سناٹا نظر آتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ناروے کی سب سے بڑی اوسلو یونیورسٹی کے ایک سیمنار میں جانا ہوا، جہاں کیمبرج مسلم کالج کے ڈاکٹر عبداللہ روتھ مین بڑی مشقت سے حاضرین کو اسلامی سائیکولوجی کا مطلب سمجھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ مسلمانوں کے پاس نفسیاتی امراض کے لیے بہترین تھیراپی موجود تھیں پھر بھی وہ نہ خود ان سے فائدہ اٹھا سکے نہ دنیا میں اس کے فوائد مارکیٹ کر سکے۔
روحانی علاج کے نام پہ پبلک کو اگر کچھ ملا تو وہ تعویز گنڈے تھے، جن میں جادو ٹونے کا تڑکا ملا کر اسے مقصد کے حصول کا آسان ذریعہ قرار دیا گیا۔ حالانکہ روحانیت اور نفسیات کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
اسلامک سائیکولوجی علم ِروحانیت، علم الابدن اور علم ِ نفس کا مجموعہ ہے، جس میں مائنڈ اینڈ باڈی کو الگ خانوں میں نہیں بانٹا گیا اور دلچسپ یہ کہ اسلامک سائیکالوجی کے تھیراپی میں مریض کی حیثیت صرف انسان کی ہوتی ہے نہ کہ مسلمان کی۔
حکیم ابن سینا کے بیمارستان کے حوالے سے تاریخ دان لکھتے ہیں کہ وہاں گفتگو سے سائیکو انالیسسز ہوا کرتے تھے۔ موسیقی، صحت افزا ماحول، خوشبو اور مراقبہ تھیراپی سے علاج ہوتا تھا۔
اسلامک سائیکالوجی وہ علم ہے، جسے باوجود تمام ٹھوس بنیادوں، تحقیق اور مواد کے مسلمان سمجھ نہ سکے۔ اب دنیا کی چوٹی کی یونیورسٹیز میں اسے بطور جدید علم پڑھایا جا رہا ہے۔
امریکہ کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں مسلم مینٹل ہیلتھ اینڈ اسلامک سائیکالوجی لیب تحقیق میں آگے ہے، برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی کے کیمبرج مسلم کالج میں اسلامک سائیکالوجی کا شعبہ ممتاز ہے۔
پاکستان میں بھی پشاور، اسلام آباد اور لاہور کی جامعات کے ماہرین نفسیات عالمی طور پر جانے جاتے ہیں تاہم عوامی سطح پہ یہ شعبہ اب بھی طالب علم اور ان کے والدین میں مشہور نہیں۔ یہ تحریر ایسے ہی نوجوانوں کے لیے ہے، جنہیں اپنے مستقبل کے لیے شعبے کا انتخاب کرنا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔