’اسلامی انتہا پسندی کی لہر‘: اردنی ادیب فخری صالح کا تجزیہ
19 مئی 2016مسلمان ابھی شاید پوری طرح سے یہ نہیں جان پائے کہ اپنے مسلمان بھائیوں اور مغربی دنیا کے خلاف خونریز محاذ آرائی کے نظریے پر عمل پیرا القاعدہ اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ جیسے چند انتہا پسند گروپ اُن کی ساکھ کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران اپنا دائرہٴ اثر دور دور تک پھیلا دینے والے ان گروپوں کی دنیا میں یا تو صرف ’ایمان والے‘ ہیں یا پھر صرف ’کافر‘۔ ان گروپوں کی سرگرمیاں دیکھ کر دنیا انہیں اسلام اور مسلمان دنیا کا اصل نمائندہ سمجھنے لگی ہے۔ بالخصوص اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہا کر ان انتہا پسندوں نے اسلام کو ایک تشدد پسند مذہب کی شناخت دے دی ہے۔
اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو مرتد قرار دینے والے ان تکفیری گروپوں کے نظریات ایسے غریب اور اَن پڑھ نوجوانوں کے ذہنوں کو متاثر کر رہے ہیں، جنہیں کسی اچھے مستقبل کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔ یہ نوجوان سیدھے جنت میں جانے کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں، چاہے وہ عمل کتنا ہی وحشیانہ کیوں نہ ہو۔
اس سوچ کا مقابلہ طاقت کے ساتھ نہیں بلکہ صرف سماجی انصاف، اچھی تعلیم و تربیت اور نوجوان نسل کے لیے ملازمت کے بہتر مواقع کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے۔ مسلمان دنیا میں ایک اعتدال پسندانہ اسلام کی سوچ کو فروغ دینا ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود انتہا پسندوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ساکھ پر جو تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں، اُنہیں دور کرنے میں عشروں لگ جائیں گے۔
موجودہ حالات میں عرب اور مسلمان معاشروں پر مغربی دنیا کے حملوں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بے رحمانہ پالیسیوں کا بھی ہاتھ ہے۔ مسلم دنیا کو اپنے ہاں تعلیم اور ثقافت کے ساتھ ساتھ فکری علوم کے فروغ میں بھی بے پناہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
مذہبی آزادی اور رواداری کا پیامبر اسلام بے شمار تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ مغربی تہذیب نے وہاں سے اپنا سفر آگے شروع کیا ہے، جہاں تک اسے مسلمانوں کی اندلسی تہذیب نے پہنچایا تھا۔
انتہا پسند اسلام کے ابدی اور آفاقی پیغام کو محدود کر دینا چاہتے ہیں۔ اسلام محض ایک مذہبی نظریے یا رسومات کا نام نہیں بلکہ یہ تمام تر تہذیبوں کے لیے وسیع دامن رکھنے والا ایک مکمل دین ہے۔ ایسے ہی معتدل اسلام کو رواج دے کر مسلمان اپنی موجودہ تشویشناک صورتِ حال سے نجات پا سکتے ہیں کیونکہ یہ تنازعہ، جو تہذیبوں کے تصادم کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، محض ایک اجتماعی خود کُشی کے مترادف ہو گا۔