اسلامی سائنسی سوچ میں تنزلی، غزالی پر الزام مت دھریں
27 مارچ 2020اسلامی عہد زریں (Golden Age) کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ سن آٹھ سو تا سن گیارہ سو کا یہ وہ دور تھا، جب مسلمانوں نے فلسفہ، منطق، اخلاقیات، طب، سائنس، ریاضی، علم فلکیات اور فن تعمیر میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ اسی لیے اسے اسلامی دور کا عروج بھی کہا جاتا ہے اور اسلام کا سنہری دور بھی۔
عرب دنیا میں انہی مسلم مفکرین کے علوم کی وجہ سے یورپ میں نشاة ثانیہ اور عہد روشن خیالی کی بنیاد پڑی۔ لیکن آج عالمی سطح پر سائنس میں مسلم کمیونٹی کی شراکت داری انتہائی کم ہو چکی ہے۔ صرف بھارت اور اسپین میں ہی اتنا سائنسی ادب شائع ہوتا ہے، جتنا تمام مسلم ممالک میں شائع ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے سائنسی علوم میں ستاون مسلم ممالک کی شراکت داری صرف ایک فیصد بنتی ہے اور وہ بھی کوالٹی کے لیے لحاظ سے کسی گنتی میں نہیں آتی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ مسلمانوں کی حالت زار یہ ہو گئی ہے؟ اسلام میں اختراعی سوچ کی تنزلی کو تو ایک عرصہ ہوا چاہتا ہے لیکن عرب سپرنگ اور دنیا میں عوامیت پسندی میں اضافے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں بھی بنیاد پرستی بڑھتی جا رہی ہے۔
الغزالی۔ دانشوری میں غیر معمولی تبدیلی
عالمانہ سطح پر ایک طویل عرصے سے یہ بحث کی جا رہی ہے کہ عظیم اسلامی ماہر الہیات ابو حامد الغزالی (1055-1111) نے اسلامی کلچر میں اکیلے ہی تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اسے سائنسی انکوائری سے نکال کر مذہبی بنیاد پرستی کی طرف مائل کر دیا۔ اس مسلم مفکر کی غیر معمُولی عقل و دانش کے سبب انہیں امام غزالی کہا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ عہد زریں کی اسلامی دانشوری میں غیر معمولی تبدیلی لاتے ہوئے امام غزالی نے کہا کہ فلسفہ اور تمام سائنسی علوم دراصل اسلامی تعلیمات سے مطابقت ہی نہیں رکھتے۔ ماہر علوم کہتے ہیں کہ 'تہافت الفلاسفہ‘ (فلسفیوں میں عدم مطابقت یا انتشار) نامی کتاب لکھ کر غزالی نے 'فلسفے پر ایسا کاری وار کیا کہ یہ علم دوبارہ عالم اسلام میں ابھر نہ سکا‘۔ اس کتاب میں انہوں نے بالخصوص ابن سینا اور الفارابی جیسے مسلم فلسفہ دانوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ اپنے دور میں فلسفے اور علم الہیات کے ماہر امام غزالی نے مسلمانوں کو سائنسی علوم سے ایسا متنفر کیا کہ اسلامی سائنسی تہذیب ہی تنزلی کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔زیادہ تر ماہرین یہی کہتے ہیں لیکن حسن حسن اس تجزیے کو غلط معلومات کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
نظام الملک۔ ابو علی الحسن الطوسی
ماہرین نے یہ تو درست کہا کہ اسلامی سنہری دور میں مسلمانوں نے گیارہویں صدی عیسوی سے سائنس سے منہ موڑنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن اس کی وجہ امام غزالی نہیں بلکہ ابو علی الحسن الطوسی (1018-1092)تھے، جو نظام الملک کے نام سے زیادہ مشہور ہوئے۔ وہ سلجوق سلطنت میں ایک اہم اور خاص وزیر اعظم تھے۔ مسلمانوں کو اختراعی سوچ سے الگ کرنے کا سہرہ دراصل انہی کے سر جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس قیامت کی نشانی ہے؟
نظام الملک نے تعلیم کا ایک نیا نظام متعارف کرایا تھا، جسے 'نظامیہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس تعلیمی نظام میں آزادانہ انکوائری کے بجائے مذہب پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اسلامی تاریخ میں تب یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ مذہبی تعلیم کو باقاعدہ طور پر ادارہ جاتی پہچان دی گئی اور عام لوگوں میں اسے کیریئر بنانے کا ایک بہترین اور منافع بخش موقع تصور کیا جانے لگا۔ اس سے قبل سائنس اور اسلام آپس میں جڑے ہوئے تھے۔
'نظامیہ‘ تعلیمی نظام نے نہ صرف مذہب پر توجہ مرکوز کرنا شروع کی بلکہ ساتھ ہی نصابی سطح پر اسلامی فقہہ میں سنی مکتب فکر کی تنگ نظر تشریح اختیار کرنے کا آغاز کیا۔ الشافعی اسکول کی طرف مائل ہونا بے ارداتاً نہیں تھا۔الشافعی مکتب فکر شریعہ کے بنیاد پرستانہ اصولوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے جبکہ عقلیت پسندی کی نفی کرتا ہے اور یہی دمشق میں خلافت بنو امیہ اور بغداد میں خلافت عباسیہ کے دور میں پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔
غیر سنی نظریات کا مقابلہ
اسلام کے شیعہ اور باطینہ (جو شریعہ کے پوشیدہ یا داخلی معنوں کے بجائے ظاہری معنوں پر توجہ دینے والا گروپ) فرقوں نے تب عراق، شام اور مصر میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی تھی۔نظامیہ مکتب فکر (جہاں امام غزالی معلم تھے اور بعد ازاں مستعفی ہو گئے تھے)کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ان ابھرتے ہوئے گروپوں کا مقابلہ کیا جائے۔
عباسی اور سلجوق دور میں بغداد اور اصفحان کے علاوہ ایسے کئی بڑے شہروں میں نظامیہ مدرسے قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، جہاں شیعہ فرقے نے اکثریت حاصل کر رکھی تھی۔ان مدرسوں سے فارغ التحصیل گریجویٹس کو اہم حکومتی عہدوں پر تعینات کیا جانے لگا اور یہ مکتب فکر اچھے مستقبل کی ایک ضمانت بنتا گیا۔
یوں بہت سے طالب علموں نے اپنے روایتی تعلیمی ادارے چھوڑ کر نظامیہ کالجوں کا رخ شروع کر دیا۔ ان میں سے زیادہ تر نے شافعی اسکول اختیار کر لیا اور یوں انہیں عدلیہ، حسبہ (شریعت نافذ کرنے والی پولیس) اور فقہہ کے شعبوں میں اعلی ملازمتیں ملنے کے مواقع روشن ہو گئے۔
بارہویں صدی عیسوی میں نظامیہ کالج سسٹم نہ صرف مشہور ہو چکا تھا بلکہ ملازمت فراہم کرنے والا ایلیٹ تعلیمی ادارہ بن چکا تھا۔اس کی متعدد برانچوں سے پڑھنے والے اسٹوڈنٹس مدلل اور فن گفتگو میں مہارت حاصل کرتے اور جہاں کہیں بھی باطینہ فرقے سے تعلق رکھنے افراد ان سے ملتے، تو نظامیہ مدرسوں کے فارغ التحصیل افراد انہیں اپنے منطق سے لاجواب کر نے کی کوشش کرتے۔
سائنسی سوچ کے محافظ۔ عباسی دور کے حکمران
طاقتور سلجوق سلطنت کے مالی اور سیاسی تعاون سے نظامیہ کالج چار صدیوں تک چلائے گئے۔یوں اس دور میں ایک سوچی سمجھی ترکیب کے تحت نصاب کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو اسلام کے ایک مخصوص رویے کی طرف مائل کیا گیا۔ سلجوق دور کے بعد کے حکمرانوں نے بھی مذہب کا استعمال ترک نہ کیا۔
اسی دوران دیگر کئی عوامل بھی تھے، جنہوں نے اسلام میں سائنسی سوچ پر قدغنیں لگانے میں مدد فراہم کی۔ ان میں عباسیہ دور کا زوال (جو اسلام میں سائنسی سوچ کا محافظ تھا) اور اسلامی دنیا کی مختلف سلطنتوں میں تقسیم بھی تھی۔یوں اس دور میں ایسی مذہبی عدم برداشت کا آغاز ہوا، جس نے سائنسی اور فلسفیانہ سوچ کو اسلام کے دائرے سے نکال کر باہر پھینک دیا۔
یہ بھی پڑھیے: مشرق وسطیٰ میں طاقت ور کون؟ افریقہ میں مساجد کی تعمیر
امام غزالی کی طرف سے فلسفے پر کی جانے والی تنقید دراصل فکری سوچ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔بلامبالغہ وہ ایسے پہلے اسکالر تھے، جنہوں نے زور دیا کہ سوشل سائنسز کو نیچرل سائنسز سے الگ کر دینا چاہیے۔ان کا یہ استدلال بھی تھا کہ کچھ بنیاد پرست، جو فلسفے کو مذہب کے ساتھ متصادم قرار دیتے ہی، فلسفے کی سبھی نظریات کو یکسر رد کر دیتے ہیں، جو ایک غلط عمل ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے زور دیا تھا کہ سورج اور چاند گرہن ایسے سائنسی حقائق ہیں، جن کی نفی ممکن ہی نہیں ہے۔
مذہبی کالج سائنسی ترقی میں رکاوٹ
امام غزالی نے ایک طرف فلسفے اور منطق میں تفریق پیدا کی جبکہ دوسری طرف فزکس اور ریاضی میں امتیاز پیدا کیا۔ان کے نزدیک فلسفے میں یہی تضادات تھے، جو انہوں نے اپنی کتاب 'تہافت الفلاسفہ‘ میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ایسا مفروضہ کہ امام غزالی نے مسلمانوں کو سائنسی علوم سے متنفر کیا، دراصل جدید اکیڈیمکس کی غلط تشریح ہے۔ گیارہویں صدی عیسوی میں کوئی ایسا مسلم اسکالر نہیں تھا، جس نے امام غزالی کی تعلیمات کی وجہ سے سائنسی علوم سے انحراف کیا ہو۔
مورخین اور امام غزالی کے دور کے ماہرین بھی تصدیق کی ہے کہ امام غزالی آخری سانسوں تک فلسفیانہ علوم سے وفادار رہے تھے۔امام غزالی کی موت کے بعد ان کے ساتھیوں نے اس تاریخی جملے پر اتفاق کیا تھا کہ 'ہمارے استاد نے فلسفہ نگل لیا تھا اور اسے باہر نکالنے سے قاصر رہے‘۔
دوسری طرف نظامیہ کالج سسٹم نے سائنسی اختراع کا دم گھوٹ دیا اور مذہبی تعلیمات کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ اور نظامیہ تعلیمی سسٹم کا اثر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس سلسلے کو کٹر سنی مذہبی رہنماؤں نے پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ وہ باطنیہ اور شیعہ فرقوں کا اثر و رسوخ کم کرنا چاہتے ہیں اور سنی عقائد کا بول بال رکھنا چاہتے ہیں۔
آج کل بھی مسلم دنیا میں سائنسی اور اختراعی علوم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں تقریبا وہی خصوصیات دیکھی جا سکتی ہیں، جو نظامیہ کالج نظام کا تحفہ ہیں۔ یہ فرقہ بازی پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں خبط ہوتا ہے کہ انہوں نے اسلام کو کسی بھی نئے پن سے پاک رکھنا ہے اور کسی ایسے عمل کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، جس کے بارے میں اسلام نے واضح طریقے سے اجازت نہیں دی ہے۔
اسلام سائنسی سوچ میں تنزلی کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔تاہم یہ ضروری ہے کہ سائنسی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ڈالنے والے نظامیہ تعلیمی نظام پر بات کی جائے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو اجاگر کیا جائے۔ موجودہ وقت میں یہ اس لیے بھی ضروری ہو چکا ہے، کیونکہ آج کل مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے اسلام کی صحیح شناخت کو مسائل کا سامنا بڑھتا جا رہا ہے۔
حسن حسن (ع ب / ع ح)