اسلحے کی عالمگیر سالانہ تجارت 400 ارب ڈالر سے زیادہ
21 فروری 2011سویڈن کے دارالحکومت میں قائم ادارے انٹرنیشنل پِیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کی جانب سے یہ رپورٹ پیر 21 فروری کو جاری کی گئی ہے جو 2009ء کا احاطہ کرتی ہے۔ اِس میں دُنیا کی جن ایک سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کا حوالہ دیا گیا ہے، اُن میں سے 45 امریکہ میں جبکہ 33 مغربی یورپ میں قائم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دُنیا بھر میں فروخت ہونے والا 90 فیصد اسلحہ اِنہی کمپنیوں سے آتا ہے۔
اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمگیر اقتصادی بحران کے باوجود 2009ء میں اسلحے کی خریداری پر اُس سے گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ فیصد زیادہ پیسہ خرچ کیا گیا۔ سب سے زیادہ مالیت کا اسلحہ امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے بیچا، برطانوی کمپنی BAE سسٹمز معمولی سے فرق کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی جبکہ تیسری پوزیشن پر بھی بوئنگ کی صورت میں ایک امریکی کمپنی رہی۔ دُنیا بھر میں 2009ء میں جتنا اسلحہ فروخت ہوا، اُس میں سے آٹھ آٹھ فیصد چوٹی کے اِنہی تینوں اداروں کے حصے میں آیا۔
SIPRI کی اسلحے کی صنعت کی ماہر سوزن جیکسن کے مطابق امریکی اسلحہ ساز اور ملٹری سروسز کمپنیوں کے ساتھ ساتھ امریکہ میں اپنی شاخیں رکھنے والی مغربی یورپی کمپنیوں کی جانب سے اسلحے کی فروخت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ رہی کہ امریکی حکومت نے فوجی ساز و سامان اور خدمات پر زیادہ پیسہ خرچ کیا۔
سویڈن کے اِس تھنک ٹینک کے مطابق دُنیا کے 100 بڑے اسلحہ ساز اداروں میں سے دَس براعظم ایشیا میں ہیں۔ اِن میں سے چار جاپان میں ہیں، تین بھارت میں، دو جنوبی کوریا میں جبکہ ایک سنگاپور میں ہے۔ چوٹی کے اِن ایک سو اداروں میں سے کسی ایک کا بھی تعلق لاطینی امریکہ یا افریقہ سے نہیں ہے۔
چین سے مصدقہ معلومات نہ ملنے کی بناء پر اِس رپورٹ میں چین کو شامل نہیں کیا گیا تاہم سوزن جیکسن کے خیال میں چین کے کئی اسلحہ ساز ادارے اتنے بڑے ہیں، کہ وہ آسانی سے چوٹی کے اِن 100 اداروں میں جگہ پا سکتے ہیں۔
SIPRI نامی یہ ادارہ 1966ء میں سویڈن کی پارلیمان کی جانب سے قائم کیا گیا تھا اور اِس کے نصف مالی وسائل سویڈن حکومت فراہم کرتی ہے۔ یہ ادارہ دُنیا بھر میں فوجی شعبے میں خرچ کی جانے والی رقوم اور مسلح تنازعات پر نظر رکھتا ہے اور ہر سال تمام تر اعداد و شمار کے ساتھ ایک رپورٹ جاری کرتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: شادی خان سیف