اسلحے کی عالمی منڈی پر امریکی اجارہ داری
22 فروری 2016امن پر تحقیق کرنے والے سویڈش ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں عالمی سطح پر اسلحے کی برآمدات میں چودہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سپری کے ماہرین کے مطابق ان میں زیادہ تر اسلحہ جات تنازعے کے شکار مشرق وسطٰی کے خطے کے ممالک نے درآمد کیے جبکہ خلیج فارس اور آبنائے باسفورس کے درمیان موجود ممالک نے بھی بڑی مقدار میں بھاری اسلحہ خریدا۔2011 ء سے 2015ء کے دوران اسلحہ خریدنے کے حوالے سے بھارت پہلے جبکہ سعودی عرب دوسرے نمبر پر رہا۔
2006ء سے 2010ء کے درمیان تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب نے اپنی اسلحے کی برآمدات میں تین گنا اضافہ کر دیا ہے۔ چین کے بعد متحدہ عرب امارات کا نمبر آتا ہے جبکہ چھٹے نمبر پر ترکی ہے۔ سپری کے ماہرین نے اس پیش رفت پر اس لیے حیرانی کا کوئی اظہار نہیں کیا کیونکہ مشرق وسطی کا خطہ بحران کا شکار ہے۔
افریقہ میں الجزائر اور مراکش نے بڑی مقدار میں اسلحہ درآمد کیا تاہم دوسری جانب عالمی منڈی میں برآمدات کے حوالے سے امریکا 33 فیصد کے ساتھ پہلے، روس 25 فیصد کے ساتھ دوسرے جبکہ تقریباً چھ فیصد کے ساتھ چین تیسرے نمبر پر رہا۔ چین کے ہتھیار خریدنے والوں میں پاکستان، میانمار اور بنگلہ دیش نمایاں ہیں۔
سپری کے ڈائریکٹر اوڈے فلوریٹ کے مطابق ’’دنیا کے مختلف خطوں میں تنازعات اور کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے اور اسی وجہ سے اسلحے کی عالمی منڈی میں امریکا کو اپنے دیگر حریفوں پر نمایاں برتری حاصل ہے۔ امریکا نے پچھلے برسوں میں قریب 98 ممالک کو اسلحہ یا تو فروخت کیا ہے یا پھر امداد کے طور پر دیا ہے۔‘‘ ان کے بقول امریکا کی اسلحہ ساز کمینپوں کے پاس ابھی بھی بڑے بڑے آرڈرز ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مغربی یورپی ممالک فرانس، جرمنی، برطانیہ، اسپین اور اٹلی اسلحے کی عالمی منڈی میں صرف بیس فیصد ہتھیار فروخت کیے۔ فرانس کی اسلحے کی برآمدات میں دس فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ جرمنی کی برآمدات میں نصف ہو گئی ہیں۔
اسی طرح لاطینی امریکی ملک میکسیکو نے بھی گزشتہ پانچ برسوں میں تین گنا زیادہ بھاری اسلحہ خریدا ہے۔ سپری کے مطابق اگلے برسوں کے دوران صورتحال میں کافی حد تک تبدیلی متوقع ہے کیونکہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے ہونے والا نقصان بہت سے ممالک کو ہتھیار خریدنے سے دور رکھے گا۔