’اسلحے کی فروخت میں کمی، لیکن کاروبار میں اضافہ‘ مگر کیسے؟
5 دسمبر 2016سپری کے محققین کے مطابق دنیا بھر میں گزشتہ برس ہتھیاروں کی فروخت میں معمولی سی کمی آئی ہے اور 2014ء کے مقابلے میں یہ 0.6 کم ہے۔ اس جائزہ میں یہ واضح بھی کیا گیا ہے کہ2011ء سے اسلحے کی تجارت میں مسلسل کمی کا رجحان ہے۔ تاہم گزشتہ برس ہونے والی اس کمی کے باوجود دنیا میں امن کے قیام کی رفتار سست روی کا شکار ہے۔ تاہم ہتھیاروں کی تجارت میں کمی کے باوجود 2015ء میں سو بڑے اسلحہ ساز اداروں کی فروخت 370 ارب ڈالر کے برابر رہی۔
سپری کی ڈائریکٹر اوڈے فلوراں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ہتھیاروں کی فروخت میں کمی تو ہوئی ہے لیکن سال 2000 کے مقابلے میں یہ ابھی بھی زیادہ ہے‘‘۔ ان کے بقول دنیا بھر میں اس حوالے سے رجحانات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور اسی وجہ سے ایک واضح رجحان کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
امریکا میں موجود کمپنیاں ابھی بھی دنیا کی اسلحے کی منڈی پر چھائی ہوئی ہیں اور گزشتہ برس کے دوران دنیا بھر میں فروخت ہونے والے اسلحے کا اّسی فیصد انہی اداروں کا تیار شدہ تھا، جس کی مالیت 209.7 ارب ڈالر بنتی ہے۔ یورپی کمپنیوں کے اسلحے کی فروخت 95.7 ارب ڈالر رہی۔ اس میں سب سے بڑا حصہ چھ فرانسیسی کمپنیوں کا تھا، جو تقریباً ساڑھے اکیس ارب ڈالر بنتا ہے۔ اوڈے فلوراں کے بقول اس کی وجہ یہ رہی کہ فرانس نے مصر اور قطر کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے بڑے بڑے سودے کیے ہیں جبکہ اسی طرح فرانس بھارت کو بھی رفائیل جنگی طیارے بیچے گا،’’ شامی تنازعے کی وجہ سے بھی یورپی اسلحے کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے، جس میں جرمنی بھی شامل ہے‘‘۔
سپری کی رپورٹ کے مطابق 2015ء کے دوران تین جرمن کمپنیوں کے بنائے گئے اسلحے کی فروخت 2014ء کے مقابلے میں7.4 فیصد کے اضافے کے ساتھ 5.6 ارب ڈالر رہی۔ سویڈش کمپنی ’سیئب‘ ہتھیاروں میں 19.8 فیصد اوربرطانوی بی اے ای سسٹمز کی ہتھیاروں کی فروخت میں 2.8 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 2015 ء کے دوران گیارہ روسی اسلحہ ساز اداروں کی فروخت30.1 ارب ڈالر رہی۔ ایشیائی کمپنیوں کی بنائے گئے اسلحے کی فروخت بھی بڑھی ہے جبکہ اس فہرست میں چین کے اعداد وشمار شامل نہیں ہے۔