اسکندریہ کا شہر اور بندرگاہ 331 BC میں مِصر کی فتح کے بعد اسکندر نے آباد کی تھی۔ اس کی موت کے بعد اس کے جنرل ٹالمی نے مصر پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ اسکندریہ اپنے لائٹ ہاؤس کی وجہ سے مشہور ہے۔ جو 284 سے 246 BC کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔
ٹالمی دوم نے اسکندریہ کی مشہور لائبریری 285-246 کے درمیان قائم کی تھی۔جس میں اُس عہد کی نادر کتابیں موجود تھیں۔ لائبریری میں ایک میوزیم بھی تھا، جہاں سائنسداں تجربات کیا کرتے تھے۔ لائبریری میں کئی ہالز تھے، جہاں فلسفے کے موضوعات پر لیکچرز دیے جاتے تھے۔
جب جولیس سیزر نے اسکندریہ کو فتح کیا۔ تو وہ شہر کی خوبصورتی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ روم اس وقت مٹی کے مکانوں سے بنا ہوا تھا۔ جبکہ اسکندریہ میں سنگِ مَر مَر کے محلّات تھے اور کشادہ سڑکیں تھیں۔ شہر کی دولت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب کلوپطرہ نے رومیوں کی دعوت کی تو کھانا سونے کی پلیٹوں میں دیا گیا۔ سونے کے گلاسوں میں شراب دی گئی۔ دعوت کے بعد سونے کی پلیٹوں اور سونے کے گلاسوں کو بطور تحفہ رومیوں کو دے دیا گیا۔
رومی عہد کے دوران اسکندریہ میں پیگن مذہب کے لوگوں کی اکثریت تھی۔ ان کے مندر جگہ جگہ بنے ہوئے تھے۔ یہ اپنے دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔ مذہبی معاملات میں روادار اور آزاد خیال تھے۔ ان کے ہاں فلسفیوں کی بڑی تعداد تھی، جو لائبریری میں لیکچرز دیا کرتے تھے۔ جن میں شہریوں کی شرکت ہوا کرتی تھی۔
شہر میں اس وقت تبدیلی آئی، جب یہاں یہودی آ کر آباد ہونا شروع ہوئے۔ ان کے اپنے محلے تھے۔ اپنا مذہب اور کلچر تھا۔ یہودیوں اور رومی سلطنت میں پہلا جھگڑا (AD 130) میں ہوا۔ بغاوت کا تو خاتمہ ہو گیا مگر مذہبی اختلافات بڑھ گئے۔ 131 عیسوی میں جب کونسٹنٹین نے مسیحی مذہب اختیار کیا تو عیسائیت کو سرپرستی مِل گئی۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے رومی سلطنت میں بسنے والے پیگنوں پر جارحانہ حملے کیے اور یہی ذہنیت وہ اسکندریہ لے کر آئے۔
اب تک اس شہر میں تقریباً مذہبی ہم آہنگی تھی اور پیگن مذاہب کے ماننے والے تعداد میں بھی زیادہ تھے۔ لہٰذا مسیحیوں کا منصوبہ تھا کہ ان کی طاقت کو توڑا جائے انہیں یا تو مسیحی بنایا جائے یا فسادات کے ذریعے ان کو مارا بھی جائے اور خوفزدہ بھی کیا جائے۔
350 عیسوی میں مسیحیوں کے ایک بڑے مجمع نے پیگن لوگوں پر حملے کیے۔ ان کے مَندروں کو مسمار کیا۔ ان کے دیوی دیوتاؤں کو توڑا ان کے سب سے بڑے دیوتا ''شراپس‘‘ کے مندر کو توڑ کر اس کے بُت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں جلا دیا۔ اس کی وجہ سے شہر کی فضا آلودہ ہو گئی اور پیگن لوگ خوف کی حالت میں رہنے لگے۔
دوسرا خونریز فساد 412 عیسوی میں ہوا جب اسکندریہ کی مشہور خاتون فلسفی پیشیاء کو مسیحیوں کے ایک مجمع نے سنگسار کر کے مارا اور پھر اس کی لاشیں کو جلایا اس ہنگامے کے بعد پیگن فلسفی یا تو اپنے گھروں میں بند ہو کر رہنے لگے یا انہوں نے شہر چھوڑ کر اپنی جانیں بچائیں۔ مجمع نے لائبریری کو بھی نہ چھوڑا اور کتابوں کو اس لیے آگ لگا دی کہ وہ ان کے عقیدے کے خلاف ہیں۔
ان فسادات کی وجہ سے اسکندریہ کے شہر سے مذہبی رواداری ختم ہو گئی اور اس کی جگہ انتہاپسندی نے لے لی۔ مسیحیت کا یہ غلبہ اس وقت تک رہا، جب 6 صدی عیسوی میں مسلمانوں نے مصر فتح کیا اور شہر کا کلچر آہستہ آہستہ بدل کر اسلامی ہو گیا۔
اس مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات ہوں تو وہ شہر کی فضا اور ماحول کو بدل دیتے ہیں۔ جب مذہبی انتہاپسندی اپنے عروج پر ہو تو فسادات میں شہری بھی مارے جاتے ہیں۔ ان کے گھربار بھی تباہ ہوتے ہیں اور ان کی روزمرّہ کی زندگی میں سکون اور اطمینان نہیں رہتا ہے۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذاہب کو ہم آہنگی کے ساتھ رہنا چاہیے یا کسی ایک مذہب کو دوسروں پر فوقیت حاصل کر کے ان کے عقیدے کو دبانا چاہیے۔ تاریخ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی علم و اَدب کو ختم کر کے ذہن کو ماؤف کر دیتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔