اطالوی زرعی شعبے کے بھارتی سکھ کارکن، غلاموں جیسی زندگی
21 جون 2014یہ بات روم میں اطالوی قومی پارلیمان میں جمعہ بیس جون کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ خبر ایجنسی ڈی پی کے مطابق گزشتہ دو عشروں کے دوران قریب تیس ہزار سکھ اٹلی کے آگرو پونٹینو نامی علاقے میں آ کر آباد ہو چکے ہیں۔ یہ خطہ روم سے جنوب مشرق کی طرف واقع ہے۔ اٹلی کے ڈکٹیٹر بینیتو موسولینی نے اس خطے کی دلدلی زمین کو خشک کر کے 1930 کے عشرے میں زرعی اراضی میں بدلا تھا۔
اطالوی پارلیمان کے ایوان زیریں کی اہتمام کردہ ایک پریس کانفرنس میں اس علاقے کے سکھوں کی برادری کے ایک رہنما کرم جیت سنگھ ڈھلوں نے کہا، ’’ہماری برادری ایک دھچکے کا شکار ہے۔‘‘
ڈھلوں نے بتایا کہ اس علاقے میں کھیتوں میں کام کرنے والے جو مزدور احتجاج کی کوشش کرتے ہیں، انہیں باقاعدگی سے پیٹا جاتا ہے۔ ڈھلوں نے صحافیوں کو بتایا کہ جب سرکاری اہلکار معائنے کے لیے آتے ہیں تو ان بھارتی نژاد مزدوروں کے آجرین انہیں کہتے ہیں کہ انہیں آٹھ یورو یا گیارہ امریکی ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے اجرت ملتی ہے اور وہ روزانہ چھ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اصل صورت حال یہ ہے کہ ان زرعی کارکنوں کو تین یورو فی گھنٹہ کے حساب سے اجرت ملتی ہے اور وہ روزانہ پندرہ گھنٹے تک کام کرتے ہیں۔
اطالوی پارلیمان میں پیش کی گئی اس رپورٹ کو نام دیا گیا ہے، ’غلاموں کی طرح کام کرنے پر مجبور‘۔ تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم In Migrazione نے ان حالات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کئی کارکن محض اس لیے افیون اور دیگر منشیات کا استعمال کرنے لگے کہ وہ کسی طرح مشقت کے بہت زیادہ بوجھ کو برداشت کر سکیں۔ یہ کارکن اس حقیقت کے باوجود منشیات استعمال کرتے ہیں کہ ان کے مذہب میں ایسے نشہ آور مادوں کا استعمال ممنوع ہے۔
اس بارے میں تحقیق کرنے والے ماہر مارکو اومیزولو کے بقول اس سال کے آغاز سے اب تک اس علاقے میں پولیس تین مرتبہ آپریشن کر چکی ہے، جس کا مقصد وہاں منشیات کی غیر قانونی تجارت کو روکنا تھا۔ ان آپریشنز کے دوران وہاں منشیات کے آٹھ ڈیلر گرفتار بھی کر لیے گئے۔
’اِن میگراسیون‘ نامی تنظیم نے اطالوی حکومت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سکھ کارکنوں کے سماجی انضمام کے پروگراموں کو بہتر بنائیں اور ان پر عمل درآمد کی سختی سے نگرانی کریں۔ اس تنظیم کے مطابق یورپی ملک اٹلی ایک ایسا معاشرہ ہے جو خود کو مہذب اور جمہوری کہلوانا پسند کرتا ہے لیکن وہاں ہزارہا سکھ کارکنوں کو سخت مشقت والا اور غیر انسانی حد تک زیادہ ایسا کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو سماجی طور پر ناقابل تصور سمجھا جاتا ہے۔
مارکو اومیزولو کا کہنا ہے کہ ایسے سکھ کارکنوں کے خلاف نسل پرستانہ بنیادوں پر بدسلوکی بھی کوئی انہونی بات نہیں۔ چند سکھوں کو ان کی داڑھیاں شیو کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ کئی دیگر کو یہ کہہ کر پگڑیاں اتارنے پر مجبور کیا گیا کہ پگڑیوں کے ساتھ وہ ’بہت زیادہ بھارتی‘ محسوس ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ چند سکھوں پر کھیتوں میں کام کے بعد واپس اپنی رہائش گاہوں کو جاتے ہوئے پتھراؤ بھی کیا گیا یا انہیں دھکے دے کر ان کی سائیکلوں سے گرا دیا گیا۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ آگرو پونٹینو دائیں بازو کی سوچ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، جہاں کئی لوگ دلدلی علاقے کو زرعی اراضی میں بدلنے کی وجہ سے موسولینی کا احترام کرتے ہیں۔ اس بارے میں رپورٹ تیار کرنے والے مارکو اومیزولو کا کہنا ہے کہ وہاں مقامی حکام کے کسی بھی طرح کی مداخلت کرنے میں بڑی سستی سے کام لیا ہے حالانکہ انہیں طویل عرصے سے حالات کا اچھی طرح علم تھا۔