1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافریقہ

افریقہ میں صدر پوٹن اور روس کی حمایت میں اضافے کی وجوہات

6 اپریل 2022

مغربی اور کئی دیگر ممالک میں صدر پوٹن کے امیج کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے لیکن افریقہ میں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہاں کھل کر روس کی حمایت کی جا رہی ہے اور اس سے روس کے نرم تشخص کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/49XVo
Russland/Südafrika Putin schüttelt Cyril Ramaphosa die Hand
تصویر: SERGEI CHIRIKOV/AFP

جہاں دنیا کے کئی خطوں میں روس کے امیج کو نقصان پہنچ رہا ہے، وہاں افریقی رہنما، حزب اختلاف کی شخصیات اور سماجی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد روس کے لیے اپنی حمایت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی حمایت کرنے والے زیادہ تر وہ پین افریقی افراد ہیں، جو افریقی اتحاد اور سامراج مخالف نظریے کے حامی ہیں۔ یہ نظریہ سرد جنگ کے عروج پر سامنے آیا تھا۔ بینن کے مشہور پین افریقی کیمی سیبا کا مارچ کے اوائل میں کہنا تھا، ''پوٹن اپنا ملک واپس چاہتے ہیں۔‘‘ سیبا نے پوٹن کی حمایت میں کہا تھا، ''ان کے ہاتھوں پر غلامی اور استعمار کا خون نہیں ہے۔ پوٹن میرے مسیحا نہیں ہیں لیکن میں انہیں تمام مغربی صدور اور تمام ملعون افریقی صدور پر ترجیح دیتا ہوں، جو مغربی اشرافیہ کے انگوٹھے کے نیچے ہیں۔‘‘

یوگنڈا میں سابق تجربہ کار رہنما یوویری موسیوینی کے طاقت ور بیٹے لیفٹیننٹ جنرل محوزی کینیروگابا بھی صدر پوٹن کے بڑے حامی ہیں۔ ان کا فروری میں ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہنا تھا، ''بنی نوع انسان کی اکثریت (جو کہ غیر سفید فام ہے) یوکرین میں روس کے موقف کی حمایت کرتی ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''پوٹن بالکل درست ہیں۔‘‘ اسی طرح بہت سے افریقی ممالک نے یوکرینی بحران کے ابتدائی مرحلے میں روس کے لیے اپنی حمایت ظاہر کی یا کم از کم سفارتی ابہام ظاہر کیا۔

افریقہ میں روس کے لیے بڑھتی حمایت

دو مارچ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ارکان نے یوکرین پر حملے کی مذمت کے لیے ووٹ ڈالے لیکن 35 ممالک اس ووٹنگ میں شریک نہیں ہوئے، ان میں سے تقریباﹰ نصف یعنی سولہ افریقی ملک تھے۔ اریٹریا نے اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔

سویڈن میں مالمو یونیورسٹی کے ایک محقق مہاما ٹواٹ اس حوالے سے بتاتے ہیں، ''عام طور پر یہ وہ ممالک تھے، جہاں یا تو آمرانہ حکومتیں تھیں یا وہ ممالک، جن کے روس کے ساتھ تاریخی تعلقات رہے ہیں، خاص طور پر سوویت یونین کے دور میں فوجی تعلقات۔‘‘

 روس کے لیے حمایت کا تاریخی پس منظر

افریقہ میں روس کے لیے ہمدردی کی جڑیں 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں مضبوط ہوئیں، جب کریملن نے سامراج اور نوآبادیاتی نظام کی مخالف تحریکوں کی حمایت کی اور نسل پرستی کے خلاف جنگ میں مدد فراہم کی۔

21 مارچ کو ایک ریلی میں، جو سفید فام اقلیت کی حکمرانی کے عروج پر شارپ وِل قتل عام کی برسی کے موقع پر تھی، جنوبی افریقہ کے رہنما جولیس ملیما نے اعلان کیا، ''ہم یہاں نیٹو سے کہنے آئے ہیں، ہم یہاں امریکہ سے کہنے آئے ہیں، ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں، ہم روس کے ساتھ ہیں۔‘‘

جولیس ملیما کا مزید کہنا تھا، ''آج ہم روس سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہاں موجود ہونے کے لیے تمہارا شکریہ، جب وہاں ہونا فیشن نہیں تھا اور روس کے لیے ہماری حمایت پر شک نہ کیا جائے۔ روس انہیں سبق سیکھا دو، ہمیں ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے۔ ہم امریکہ کی طرف سے ڈکٹیٹ کیے جانے سے تھک چکے ہیں۔‘‘

اسی طرح ساحل کے علاقے میں بھی روس نواز ریلیاں نکالی گئیں، جہاں ماسکو اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ یہ خطہ ماضی میں نو آبادیاتی طاقت فرانس کے زیر تسلط رہا ہے۔ مالی کی جنتا، نیز وسطی افریقی جمہوریہ (سی اے آر) میں مشکلات کی شکار حکومتوں نے بھی  روس کا ساتھ دیا ہے۔ روس نے مالی کی مسلح افواج کو ابھی گزشتہ ہفتے ہی روسی جنگی ہیلی کاپٹر اور ریڈار فراہم کیے تاکہ وہ ایک عشرہ پرانی جہادی عسکریت پسندی کا مقابلہ کر سکیں۔

سوشل میڈیا پر روس کی حمایت

 کریملن کی 'سافٹ پاور‘ کو سوشل میڈیا اور دیگر آؤٹ لیٹس کے ذریعے بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ مالمو یونیورسٹی کے محقق مہاما ٹواٹ کہتے ہیں، ''وہاں یوٹیوب چینلز کا پھیلاؤ ہے، جو غیر مستحکم کرنے والے پیغامات پھیلاتے ہیں۔ وہ مغرب اور افریقی حکومتوں کے درمیان دراڑ پیدا کرتے ہیں اور اس طرح روس کے مفادات میں مدد کرتے ہیں۔‘‘

اسی طرح کیمرون میں پین افریقیوں کے ٹیلی وژن افریقی میڈیا پر زیادہ تر روس کے حمایتی تبصرہ نگاروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس چینل کے سوشل میڈیا پر ایک موضوع یہ تھا، ''ولادیمیر پوٹن کو قتل کرنے کے منصوبے- مغرب کہاں لائن کھینچے گا؟‘‘

فرانسیسی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (آئی ایف آر آئی) نے گزشتہ سال اپریل میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ روس نے اپنے بارے میں رائے کو تبدیل کرنے کی کوشش پر دو جہتی رویہ اپنایا ہے، ''مسلم مخالف، مہاجر مخالف اور زینوفوبک بیانیے کا نشانہ یورپی سامعین ہے جب کہ ڈی کالونائزیشن اور مغربی سامراج کے خاتمے کے مطالبات زیریں صحارا کے افریقہ اور مسلم دنیا کو نشانہ بناتے ہیں۔‘‘

ا ا / م م (اے ایف پی)