1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افریقہ کی غذائی خود کفالت کے لیے افریقی چاول

20 اگست 2010

افریقہ میں افریقی چاول ماضی میں قریب ساڑے تین ہزار سال تک کاشت کیا جاتا رہاہے۔ لیکن پھر کسانوں نے چاول کی ایشیائی قسم کی کاشت کو ترجیح دینا شروع کی تو یہ چاول افریقہ ہی میں تقریبا ناپید ہوگیا۔

https://p.dw.com/p/Orms
ایک افریقی کسان اپنی چاول کی فصل کا معائنہ کرتے ہوئےتصویر: AP

علی قاسم ایک ایک کر کے اپنے چاول کے کھیت سے فالتوجڑی بوٹیاں اکھاڑ رہا ہے۔ افریقہ میں ایسابہت ہی کم دیکھنے میں آتا ہے لیکن اس کسان نے اپنے کھیت میں افریقی چاول کاشت کر رکھے ہیں۔ ماضی میں افریقی چاول کی کاشت تقریبا ختم ہو گئی تھی کیونکہ افریقی کسانوں نے زیادہ پیداوار والے ایشیائی چاولوں کی کاشت شروع کر دی تھی۔

محققین کو امید ہے کہ افریقہ میں انہیں آئندہ علی قاسم کی طرح کے زیادہ سے زیادہ کاشتکار دیکھنے کو ملیں گے۔ اس کسان کی عمر 32 سال ہے اور وہ ٹوگو کی ریاست میں وسطی ’اتک پامی‘ کہلانے والے علاقے کے ان تقریبا سو کسانوں میں سے ایک ہے، جو وہاں تجرباتی بنیادوں پر افریقی چاول کاشت کر رہے ہیں۔ اس تجرباتی پروگرام کو افریقہ رائس سینٹر کی سرپرستی حا صل ہے، جس کا صدر دفتر ہمسایہ ملک بینن میں قائم ہے۔

Karte von Togo
افریقی چاول کی کاشت کو رواج دینے کے لئے سب سے زیادہ کام ٹوگو اور بینن میں ہو رہا ہےتصویر: APTN/DW

اس چھوٹے سے وسطی افریقی ملک میں ماہرین کسانوں کے کاشتکاری کے اب تک کے رجحانات کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ان کسانوں کو اس پورے براعظم میں نئے سرے سے زیادہ سے زیادہ افریقی چاول کاشت کرنے کی ترغیب دی جائے۔ افریقی چاول کو عرف عام میں’Oryza ‘اورائزہ چاول کہا جاتا ہے اور زرعی ماہرین کو امید ہے کہ چاول کی اس مقامی قسم کی کاشت سے افریقہ میں اشیاء خوراک کی کمی سے متعلق بحرانوں کا مقابلہ کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔

افریقہ میں یہ چاول ماضی میں قریب ساڑے تین ہزار سال تک کاشت کیا جاتا رہاہے۔ لیکن پھر کسانوں نے چاول کی ایشیائی قسم کی کاشت کو ترجیح دینا شروع کی تو یہ چاول افریقہ ہی میں تقریبا ناپید ہوگیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ افریقہ میں چاول میں ایشیائی قسموں کی پیداوار کی وسیع تر درآمد کو بھی اب تقریبا ساڑے چارسو برس ہو گئے ہیں۔

ماہرین کی رائے میں افریقی نسل کے چاولوں Africa Rice کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں غزائیت بہت زیادہ ہوتی ہے اور اب محققین اس بارے میں مختلف پہلوؤں سے تحقیق کر رہے ہیں کی اس چاول کی پیداوار میں اضافہ کیسے کیا جائے۔ یہ ہی نہیں بینن میں افریقہ رائس سینٹر کی طرف سی یہ کوششیں بھی کی جا رہی ہیں کہ افریقی ملکوں میں چاول کی درآمدی قسموں پر انحصار کم سے کم کر دیا جائے۔

ٹوگو میں افریقی چاول سے متعلق ریسرچ پروگرام کے سربراہ موسی سائی کہتے ہیں کہ اس پروگرام کا مقصد چاول کی کاشت اور پیداوار کے معاملے میں افریقہ کو خود انحصاری کی منزل تک لانا ہے۔ اس لیے اس فصل کی پیداوار بڑھانے پر زیادہ زیادہ توجہ دی جا رہی ہے تاکہ بین الاقوامی منڈیوں میں افریقی چاول کی ایشیائی چاول کی مختلف قسموں کے ساتھ مقابلے کی اہلیت میں اضافہ کیا جا سکے۔

Eine Schüssel mit Reis
دنیا کے بہت سے ملکوں میں چاول عام انسانوں کی روزمرہ خوراک کا اہم حصہ ہےتصویر: AP

افریقہ رائس سینٹر کی سال رواں کے لیے سالانہ رپورٹ کے مطابق افریقہ میں چاول کی کھپت پیداوار سے بہت زیادہ ہے۔ اس لیے افریقی ریاستیں اپنی جملہ ضروریات کا چالیس فیصد حصہ درآمدی چاول سے پورا کرتی ہیں۔

سن دو ہزار آٹھ میں افریقی ملکوں نے اپنے ہاں چاول کی درآمد پر3.6بلین ڈالر یا 2.8 بلین یورو خرچ کیے۔ اب کوشش یہ کی جا رہی ہیں کہ درآمدی چاول میں کمی کرتے ہوئے قیمتی غیر ملکی زرمبادلہ بچایا جائے، اور اسے مجموعی ترقی کے لیے ان شعبوں میں استعمال کیا جائے، جہاں ان مالی وسائل کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔

افریقی رائس سینٹر کے مطابق افریقہ میں مجموعی طور پر اور مغربی افریقہ میں خاص طور پر چاول عام شہریوں کی روزمرہ خوراک کا سب سے اہم حصہ ہے۔ اسی لیے سن 1961سے لے کر سن2006 تک افریقہ میں چاول کے مجموعی استعمال کی شرح میں ساڑے چار فیصد سالانہ کی رفتار سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔

بینن میں افریقہ رائس سینٹر کی طرف سے جن ایک سو کسانوں کو افریقی چاولوں کی تجرباتی کاشت سے پروگرام میں شامل کیا گیا ہے انھیں اس مرکز کی طرف سے چاول کے بیج مہیا کیے جانے کے علاوہ مالی امداد بھی دی جا رہی ہے ۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں