افغان اشرافیہ ملک سے فرار ہو رہی ہے
25 اپریل 2015گزشتہ تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک دنیا بھر میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کا تعلق افغانستان ہی سے ہوا کرتا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے UNHCR کے مطابق گزشتہ برس شامی مہاجرین افغان تارکین وطن کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اس فہرست میں پہلے نمبر پر پہنچ گئے۔ طویل عرصے تک جاری رہنے والی جنگی صورتحال، غیر قانونی حکومتیں اور دہشت گردی کی وجہ سے خاص طور پر نوے کی دہائی میں چھ ملین افغان شہریوں نے اپنا وطن چھوڑا۔
1979ء میں سابق سوویت یونین کے حملے کے بعد مہاجرت شروع ہوئی اور اس کے بعد جاری رہنے والی خانہ جنگی کے علاوہ طالبان کے دور حکومت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔2011ء میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی فوجی مداخلت کے بعد بھی افغان شہریوں کی جانب سے ترک وطن جاری رہا۔ اس دوران افغان عوام نے یہ تجربہ بھی کر لیا کہ غیر ملکی افواج بھی افغانستان میں دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے مہاجرین کو افغانستان لانے کے لیے شروع کیے گئے منصوبے کے باوجود ابھی تک تقریباً 2.7 ملین افغان شہری دیگر ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
نوے فیصد افغان پناہ گزین پڑوسی ملک پاکستان میں قائم کیمپوں میں بے یار و مددگار زندگی گزار رہے ہیں یا پھر بہت سے ایران میں پارکوں کے محافظ، مالی یا گھروں میں کام کاج کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر غیر قانونی طور پر وہاں مقیم ہیں اور انہیں ہر وقت اپنے ملک بدر کیے جانے کا دھڑکا بھی لگا رہتا ہے۔ تاہم ان میں سے بہت کم ہی پناہ گزین ایسے ہیں، جو اپنے وسائل اور نجی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے یورپ یا امریکا کا رخ کرتے ہیں۔ عام طور پر ایسے افغان شہری اپنے ملک کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سرکاری افسران، ماہرین تعلیم، بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے مقامی ارکان اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔
شرمیلا ہاشمی نے دو سال قبل افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ شرمیلا صوبہ ہرات کے گورنر کے دفتر میں ترجمان کے طور پر کام کرتی تھیں اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر صحافیوں کا ایک تربیتی مرکز بھی چلاتی تھیں۔ اسی وجہ سے یہ دونوں طالبان کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے۔ برلن پہنچنے پر شرمیلا نے بتایا، ’’اسی وجہ سے ہم نے یہ مرکز بند کرنے اور افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ اس کے بعد ان دونوں نے انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں سے رابطہ کیا اور جرمنی کی جانب روانہ ہوئے۔
افغانستان چھوڑنے والوں میں ایسے شہری بھی شامل ہیں، جو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے دستوں کے ساتھ بطور مترجم کام کرتے رہے ہیں اور وہ افراد بھی جو غیر ملکی افواج کے منصوبوں سے منسلک رہے ہیں۔ اپریل 2014ء تک جرمن فوج کا ساتھ دینے والے افغان شہریوں کی جانب سے جرمنی میں سیاسی پناہ کے لیے دی جانے والی ساٹھ فیصد درخواستوں کو رد کیا جا چکا تھا۔
طالبان ایسے افغان باشندوں کو غدار قرار دیتے ہیں اور ان میں قندوز سے تعلق رکھنے والا علی اللہ بھی شامل ہے۔ وہ بتاتا ہے، ’’ایک شام میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ مجھے کسی نامعلوم نمبر سے ایک فون کال آئی۔ پشتو میں ایک شخص نے کہا، ’’تم کافروں اور ان غیر ملکیوں کے مترجم اور جاسوس ہو، جو ہمارے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ جرم ہے۔ تمہارے پاس ہمارے ساتھ مل کر جرمنوں اور حکومت کے خلاف لڑنے کا ایک موقع ہے۔‘‘
علی اللہ نے یہ پیشکش مسترد تو کر دی لیکن اسے اپنی زندگی کے حوالے سے خدشات بھی ہونے لگے۔ اس نے گھر سے نکلنا تقریباً چھوڑ ہی دیا۔ اس کا ایک دوست وفا بھی یہی کام کیا کرتا تھا اور نومبر 2013ء میں اس کی لاش اسی کی گاڑی سے ملی تھی۔
افغان شہریوں کے ہدف بنا کر قتل کر دیے جانے کے واقعات کے علاوہ ان کی طرف سے اپنا ملک چھوڑنے کے رجحان کی کئی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ بم حملوں میں عام شہریوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتیں بھی افغانوں کو بیرون ملک منتقل ہونے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ کابل میں ایک کمزور حکومت ہے اور پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے امکانات کی بھی شدید کمی ہے۔
دوسری جانب غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے معیشت بھی مستحکم نہیں ہو پا رہی۔ اس کے علاوہ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 36 فیصد افغان شہری خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ سویڈن میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والے ایک افغان شہری پدرم طورکم کے بقول، ’’افغانستان میں ماہرین تعلیم اور دیگر ہنرمند افراد کے بیرون ملک منتقل ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال کا ایک ایسی گاڑی سے موازنہ کیا جا سکتا ہے، جسے کوئی چلانا نہیں چاہتا۔‘‘