افغان بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کوشاں اندیشہ
3 اکتوبر 2013کئی دہائیوں سے جنگ سے نبرد آزما افغانستان کی کئی نسلیں جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہوئی ہیں۔ لیکن افغانستان کی ایک باہمت خاتون اپنے ملک کی نئی نسل کا مستقبل بدلنے کے لیے پر عزم ہیں۔ یہ تیس سالہ اندیشہ فرید ہیں، جنہوں نے دس سال قبل کابل میں یتیم بچوں کو بہتر مستقبل دینے کے لیے ایک یتیم خانہ قائم کیا تھا۔
اندیشہ فرید اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ 1983ء میں جس دن ان کی پیدائش ہوئی، اسی روز روس کے ایک حملے میں ان کا گھر تباہ ہوگیا اور ان کے اہل خانہ ایران ہجرت کر گئے۔ اندیشہ کا بچپن بطور ایک پناہ گزین گزرا۔ اندیشہ کہتی ہیں کہ باقی بچوں کی نسبت ان کی قسمت اچھی تھی کیونکہ چھ سال کی عمر میں ان کے والدین نے انہیں پاکستان کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا۔
وہ کہتی ہیں’’جس مہاجر کیمپ میں میں نے پرورش پائی، وہاں کئی اور بچے بخار، اسہال اور ایسی دیگر معمولی بیماریوں سے ہلاک ہو گئے، جن سے باآسانی بچا جا سکتا تھا۔ وہاں پر پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ تھا لوگ کئی میل چل کر صاف پانی لینے جاتے تھے۔ میں خوش قسمت تھی کہ میں تعلیم حاصل کر سکی۔ جب مجھے اس بات کا اندازہ ہوا تو اسی لمحے میں نے افغانستان کے لیے کچھ ایسا کرنے کا فیصلہ کیا، جس کی میرے ملک کو بے پناہ ضرورت تھی۔‘‘
پر عزم اندیشہ نے دس سال قبل کابل پہنچ کر وہاں کے یتیم بچوں کے لیے افغان چائلڈ ایجوکیشن اینڈ کیئر آرگنائزیشن قائم کی۔ اندیشہ کا نصب العین یہ ہے کہ وہ ملک کے ان یتیم بچوں کو بہتر تعلیم و تربیت فراہم کریں، جن کی تعداد کا اندازہ 1.6 ملین لگایا جاتا ہے۔ ’’اس یتیم خانے کے سبھی بچے افغانستان کے پبلک سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سکول سے جب وہ واپس یتیم خانے آتے ہیں، تو انہیں دوبارہ سے سائنس، تاریخ، اور جغرافیے کے مضمون پڑھائے جاتے ہیں۔‘‘
اندیشہ کی ان کاوشوں کو عالمی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اندیشہ کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اندیشہ فرید ایک غیر معمولی خاتون ہیں، جنہوں نے گوناگوں خطرات کے باوجود افغانستان میں نئی نسل کو تعلیم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی اس کاوش سے افغانستان کا ایسا مستقبل ممکن ہے، جہاں سب کے لیےخوشحالی اور ترقی ممکن ہو۔‘‘
افغانستان میں خصوصی طور پر لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرنا آسان نہیں۔ اندیشہ کا کہنا ہے کہ ان برسوں میں ان کے ادارے کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ’’افغان حکومت میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں، جو خواتین کے حقوق یا ان کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کی حمایت نہیں کرتے۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہمیں ان بچیوں کو تعلیم دلوانے اور لڑکوں اور لڑکیوں کو برابر مواقع فراہم کرنے میں گزشتہ دو برس سے کئی مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘
اپنے ملک کے بہتر مستقبل اور یہاں کے یتیم بچوں کو ایک خوبصورت زندگی کا تحفہ دینے کی خواہش مند اندیشہ کسی مشکل کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیتیں۔ ’’میں ان خوبصورت بچوں کو افغانستان کا مستقبل بہتر بناتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں انجینئرز کو اس ملک کی تعمیر کرتے اور ڈاکٹروں کو افغان شہریوں کی دیکھ بھال کرتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ ہمارے ملک میں استادوں کی ضرورت ہے۔ افغانستان مین دائیوں کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان میں دنیا میں سب سے زیادہ شرح اموات ہے۔ ہمیں ان بچوں کو ایک محفوظ اور پر امن ماحول فراہم کرنا ہے جس سے ان کی زندگیوں میں ایک بڑی تبدیلی آ سکتی ہے اور پھر یہی بچے افغانستان کے مستقبل میں بھی بڑی تبدیلی لائیں گے۔‘‘