افغان حکومت سو دن بعد بهی کابينه تشکيل نه دے سکی
6 جنوری 2015افغانستان میں ٹهیک ایک سو دن قبل ایک صبر آزما، پرتناؤ اور پیچیده انتخابی عمل کے بعد اشرف غنی کو ملک کا صدر اور ان کے سابق حریف عبد الله عبد الله کو اجرائیوی رئیس یعنی چیف ایگزیکیٹیو منتخب کیا گیا تها۔ تاہم بظاہر دونوں رہنماوں کے مابین پس پرده تلخیاں اور دوریاں اتنے دن گزرنے کے بعد بهی نئی کابینه کی تشکیل میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
امریکی وزیر خارجه جان کیری مصالحتی کوششوں کے بعد غنی اور عبد الله شراکت اقتدار کے اس فیصلے پر راضی ہوئے تهے اور اب بعض ناقدین کا کہنا ہے که پهر کوئی اعلیٰ امریکی عہدیدار ہی انہیں وزرا کے انتخاب پر راضی کر سکے گا۔
ماہر اقتصادیات و سماجیات، اشرف غنی نے 29 ستمبر کو عہدهء صدارت کا حلف اٹهانے کے بعد ایک پرامن اور خوشحال افغانستان کے قیام کے لیے انتهک محنت کا عزم ظاہر کیا تها۔ ان کے بعض فیصلے جیسا که کابل بینک اسکینڈل کی دوباره سے جانچ، کفایت شعاری سے متعلق متعدد اقدامات اور بالخصوص خارجه پالیسی کے ضمن میں سعودی عرب اور چین کے بعد پاکستان کے دورے کو خاصا سراہا گیا ہے۔ کابینه کی تشکیل میں اس قدر تاخیر نے البته خدشات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جنم دیا ہے۔
حکومتی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که دونوں دهڑوں یعنی صدر غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبد الله کے مابین ابتدائی طور پر کم از کم پانچ وزارتوں کے لیے وزرا کے ناموں پر اتفاق ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں داخله، دفاع، خارجه، مالیات اور مقامی حکومتوں کی تشکیل سے متعلق وزارتوں کے نام لیے جا رہے ہیں۔
ماہرین کے بقول افغان سیاست دانوں کی اکثریت اب بهی قبائلی سوچ کے پنجرے سے نکل نہیں پائی ہے اور اپنے ذاتی اور گروہی مقاصد کی خاطر زیاده سے زیاده اثر و رسوخ کے حصول میں مگن ہے۔ یاد رہے که صدر غنی، جو عالمی بینک اور اقوام متحده جیسے اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرچکے ہیں، افغان سیاست میں ایک نیا چہره ہیں جب که عبد الله اور ان کے حامی گزشته ایک دہائی سے بهی زیاده عرصے سے اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز ہیں اور اب اس تسلسل کو توڑنا بظاہر صدر غنی کے لیے مشکل دکهائی دیتا ہے۔
تجزیه نگار وحید مژده کے بقول فی الحال دور دور تک تبدیلی کے آثار دکهائی نہیں دیتے۔ ’’ان لوگوں نے افغانستان کو ایک میٹها کیک سمجھ رکها ہے اور ہر ایک کو بس یه فکر لاحق ہے که اس کا حصہ بڑے سے بڑا ہو اور جلد از جلد اسے مل جائے‘‘۔ مژده کے بقول ایسے اشارے بهی موجود ہیں که خود صدر غنی اور عبدالله کے مابین تو کافی حد تک افہام و تفہیم موجود ہے تاہم ان کے سخت گیر مؤقف کے حامل اتحادی مثال کے طور پر صدر کے کیمپ میں جنرل رشید دوستم اور عبدالله کے کیمپ میں محمد محقق جیسے لوگ آسانی سے نہیں مان رہے۔
کابینه کی تشکیل سے متعلق مذاکرات سے باخبر ایک ذریعے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که صدر غنی کا اصرار ہے که محدود وزارتوں کو برابر تقسیم کرلیا جائے جبکه زیادہ تر وزارتوں کو غیر جانبدار اور پیشه ور افراد کے حوالے کر دیا جائے۔ اس کے برعکس چیف ایگزیکٹیو عبدالله کے حامی تمام تر وزارتوں کی سیاسی بنیادوں پر تقسیم چاہتے ہیں۔
مجموعی طور پر نئی کابینه 25 وزرا پر مشتمل ہوگی۔ اس وقت بیشتر وزارتیں سیکرٹری سطح کے افسران یا نگران وزراء کے تحت کام سر انجام دے رہی ہیں، جس کے باعث خاص اہمیت کی حامل وزارتوں بالخصوص دفاع، داخله، خزانه، خارجه اور تعلیم، میں جمود کا سا سماں ہے۔ طالبان، جنہیں حکومت کے مسلح مخالفین کہا جاتا ہے، بهی صورتحال سے بهرپور فائده اٹها رہے ہیں۔ اسی صورت حال نے انہیں نیٹو افواج کے انخلا نے پہلے ہی اپنی کارروائیاں بڑهانے کا موقع فراہم کر رکها تھا۔
افغان پارلیمان حکومت کو متنبه کرچکی ہے که اگر کابینه کی تشکیل میں مزید دیر کی گئی تو حکومت اپنے وجود کی منطق کهو بیٹهے گی۔ اسی طرح سماجی حلقوں نے بهی کابل حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے خبردار کر رکها ہے که کابینه کی تشکیل میں مزید التوا کی صورت میں ملک گیر مظاہرے شروع کر دیے جائیں گے۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں ان دنوں البته یه چرچا ہے که جلد ہی ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد افغانستان کا دوره کرنے والا ہے، جس میں دیگر امور کے ساته ساته کابینه کی تشکیل کے معاملے پر بهی بات چیت ہوگی۔