افغان سرزمین کو استعمال نہیں ہونے دیں گے، طالبان
7 جولائی 2022طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوند زادہ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاہدے کی اب بھی پاسداری کر رہے ہیں جس پر انہوں نے سن 2020 میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے امریکہ کے ساتھ دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے میں دہشت گردی سے لڑنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
گزشتہ برس اقتدار پر قبضے کے بعد سے طالبان کئی بار یہ بات دہرا چکے ہیں کہ افغانستان کو دوسرے ممالک کے خلاف حملوں کے لیے ’لانچنگ پیڈ‘ کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔
عیدالاضحٰی کی تعطیل سے پہلے اپنے ایک اہم خطاب میں اخوند زادہ نے کہا، ’’ہم اپنے پڑوسیوں، خطے اور دنیا کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہماری ہی سرزمین کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے اس کا استعمال کرے۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت بھی نہ کریں۔‘‘
امریکی قیادت والے اتحاد نے نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے الزام میں طالبان کو عسکری حملوں کے بعد سن 2001 میں بے دخل کر دیا تھا۔ تاہم افغانستان سے امریکی اور نیٹو کے انخلا کے آخری ہفتوں میں افراتفری کے دوران، اگست کے وسط میں طالبان نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
لیکن اب تک بین الاقوامی برادری طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کی شناخت یا تعاون سے گریز کرتی رہی ہے۔ عالمی برادری کو افغانستان میں انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق سے متعلق کافی شکوک و شبہات ہیں۔
طالبان کے روحانی سربراہ اخوند زادہ ایک الگ شخصیت کے مالک ہیں جو ابتدا ہی سے پوشیدہ رہے ہیں اور ان کے بارے میں لوگوں کو بہت زیادہ علم نہیں ہے۔ سن 2016 میں امریکی ڈرون حملے میں اپنے پیشرو ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد وہ اقتدار کی تیزی سے منتقلی کے دوران اسلامی تحریک کے رہنما بن گئے۔
اخوند زادہ نے اپنے عید پیغام میں کہا، ’’باہمی تعامل اور عزم کے فریم ورک کے اندر، ہم امریکہ سمیت دنیا کے ساتھ اچھے، سفارتی، اقتصادی اور سیاسی تعلقات چاہتے ہیں اور اسے ہم تمام فریقوں کے مفاد میں سمجھتے ہیں۔‘‘
حال ہی میں افغان دارالحکومت کابل میں مسلم علماء اور قبائلی عمائدین کی تین روزہ مجلس کا انقعاد ہوا تھا۔ اس میں طالبان کی حمایت کا وعدہ کرنے کے ساتھ ہی عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ ملک میں طالبان کی زیر قیادت حکومت کو تسلیم کرے۔
اس موقع پر اخون زادہ جنوبی صوبہ قندھار میں اپنے اڈے سے کابل آئے اور جمعے کے روز اجتماع سے خطاب بھی کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ ان کا افغان دارالحکومت کا پہلا دورہ تھا۔
اس اجتماع میں ان کے تقریبا گھنٹے کے خطاب کو سرکاری ریڈیو پر نشر کیا گیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کو ''مسلم دنیا کی فتح'' قرار دیا۔
افغانستان اس وقت شدید قسم کے اقتصادی بحران سے دوچار ہے، جہاں خوراک اور دیگر ضروری اشیا کی بھی شدید قلت ہے۔ گزشتہ ماہ افغانستان میں آنے والے طاقت ور زلزلے سے جہاں تقریبا ایک ہزار افراد ہلاک ہو گئے، وہیں صورت حال مزید خراب ہو گئی۔ اس وقت بھی طالبان نے بین الاقوامی برادری سے مدد کی اپیل کی تھی۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)