افغان صدر نے 1500 طالبان کو رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا
11 مارچ 2020طالبان اور امریکا کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ افغان حکومت اپنی قید میں موجود 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ طالبان اپنی قید میں موجود 1500 افغانوں کو رہا کریں گے۔
صدر اشرف غنی کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق بقیہ 3500 طالبان قیدیوں کی رہائی بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے بعد بتدریج عمل میں آئے گی اور ہر دو ہفتوں بعد 500 طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جس کا دارومدار طالبان کی طرف تشدد میں کمی پر ہو گا۔
اقوام متحدہ کی بھی امریکا طالبان معاہدے کی حمایت
افغان صدر اشرف غنی کا یہ حکم نامہ ایک ایسے موقع پر جاری کیا گیا ہے جب امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ افغانستان میں جاری تشدد کا درجہ 'ناقابل قبول‘ ہے۔ اس بیان کے مطابق گو طالبان نے امریکی سربراہی میں افغانستان میں تعینات فورسز اور افغان شہروں میں حملوں کا سلسلہ روک دیا ہے مگر پھر بھی دور دراز علاقوں میں تشدد کا سلسلہ بدستور کافی زیادہ ہے۔
قیدیوں کی مشروط رہائی کا اعلان امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے، طالبان
دوسری طرف طالبان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ قیدیوں کی مشروط رہائی سے متعلق افغان صدر کا حکم نامہ دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
طالبان کے ایک ترجمان سہیل شاہین نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ''یہ بات واضح طور پر امن معاہدے میں درج ہے کہ پہلے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور پھر افغان ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع ہو گا۔‘‘
سہیل شاہین کا مزید کہنا تھا، ''ہم نے قیدیوں کی کسی بھی مشروط رہائی پر اتفاق نہیں کیا تھا۔ اگر کوئی اس کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ اُس امن معاہدے کے خلاف ہو گا جس پر ہم نے 29 فروری کو دستخط کیے تھے۔‘‘
امریکی افواج کی واپسی کا عمل جاری
کابل میں جاری سیاسی بحران اور تشدد میں اضافے کے باوجود امریکا نے افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
امریکا نے فروری میں طالبان کی قیادت کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت پہلے مرحلے میں پینٹاگون اگلے چھ ماہ کے اندر اپنی افواج کی تعداد 12000 سے گھٹا کر 8600 کردے گا اور چودہ مہینوں کے اندر اپنی، اپنے اتحادیوں اور دیگر شریک ملکوں کی پوری فوج کو افغانستان سے نکال لے گا۔ اس میں غیر سفارتی اہلکار، سویلین، پرائیوٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز، تربیت دینے والے، مشیر اور معاون اہلکار شامل ہیں۔
افغانستان ميں دو صدور نے حلف اٹھا ليا
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کہہ چکے ہیں کہ امریکی افواج کی تعداد 8600 تک لانے کے بعد صورت حال کا تجزیہ کیا جائے گا کہ آیا طالبان معاہدے کی شرطوں پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔
ا ب ا / ع ا (اے پی، روئٹرز)