افغان صوبے قندوز میں مدرسے پر فضائی حملہ، درجنوں ہلاکتیں
2 اپریل 2018قندوز کی صوبائی کونسل کے ایک رکن مولوی عبداللہ نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ ’مولوی گجر‘ نامی مدرسے پر اس حملے کے نتیجے میں 50 سے 60 تک طالبان عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ عبداللہ کے مطابق جس وقت یہ فضائی حملہ کیا گیا، اس وقت طالبان کے کئی ارکان اور عام شہری وہاں قرآن خوانی میں مصروف تھے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں سویلین ہلاکتوں کی تاحال کوئی اطلاع نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس حملے میں 150 کے قریب مذہبی اسکالر اور عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ طالبان کی طرف سے اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ حملے کے وقت ان کے کوئی جنجگو وہاں موجود تھے۔ مقامی باشندوں کے مطابق اس فضائی حملے کا نشانہ ایک مسجد بنی اور یہ کہ اس کے نتیجے میں متعدد عام شہری بھی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
افغانستان میں امریکی فورسز کی طرف سے تاہم کہا گیا ہے کہ امریکی فورسز نے اس علاقے میں کوئی حملہ نہیں کیا۔ روئٹرز نے امریکی فوج کی کرنل لیزا گارشیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی فورسز نے آج پیر دو اپریل کو قندوز میں کوئی حملہ نہیں کیا اور اگر کسی کی طرف سے ایسا کوئی دعویٰ کیا بھی جا رہا ہے تو وہ غلط ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے افغان سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ صوبے قندوز کے ضلع دشتِ ارچی میں واقع اس مدرسے پر جب یہ حملہ کیا گیا، اُس وقت وہاں طالبان کے اعلیٰ کمانڈرز موجود تھے اور وہ موسم بہار کے تازہ حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے جمع ہوئے تھے۔
افغان وزارت دفاع کے ترجمان نے بھی اس حملے کی تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ طالبان کے ایک تربیتی مرکز پر کیا گیا۔ محمد رادمنش کے مطابق اس حملے میں 20 طالبان ہلاک ہوئے، جن میں اس ضلع کے لیے طالبان کے ریڈ یونٹ کے کمانڈر اور کوئٹہ شوریٰ کا ایک اہم رکن بھی شامل ہیں۔ ترجمان نے کسی سویلین ہلاکت کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس حملے میں اتنی ہی تعداد میں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔