افغان طالبان کی موبائل فون کے انٹیناز کو بم سے اڑانے کی دھمکی
7 مئی 2010یہ سلسلہ گزشتہ 10روز سے جاری ہے۔ شہر قندوز میں کام کرنے والی چاروں مرکزی موبائل فون کمپنیاں اپنے اینٹیناز شام ہوتے ہی بند کر دیتی ہیں اور اگلے روز صبح نظام بحال کر دیا جاتا ہے۔ صوبائی کونسل کے ایک رکن خوش محمد نے جرمن پریس ایجنسی ڈی پی اے کو بیان دیتے ہوئے اس امرکی تصدیق کی کہ ’صوبے قندوزمیں شام 6 بجے سے صبح 6 بجے تک تمام موبائل فون رابطے منقطع ہوجاتے ہیں‘۔
طالبان کی اسی قسم کی دھمکیوں کے سبب افغانستان کے مشرقی اور جنوبی صوبوں میں گزشتہ تین سالوں سے رات کے وقت موبائل فون نیٹ ورک کا مکمل ’بلیک آؤٹ‘ رہتا ہے۔ ان علاقوں میں طالبان عناصر سب سے زیادہ سرگرم ہیں اورموبائل فون کمپنیوں کی طرف سے طالبان کے احکامات نہ ماننے کے نتیجے میں وہاں ان کے متعدد کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا اور ان کمپنیوں کے ٹاورز تباہ کر دئے گئے تھے۔ قندوز کے ایک شہری شیرین آغا نے کہا کہ موبائل فون کے نظام کے بند رہنے سے بسا اوقات سنگین صورت کا سامنا ہوتا ہے خاص طور سے ایمرجنسی میں اگرکسی مریض کو ہسپتال لے جانے کے لئے ایمبیولنس بلانی ہو یا کسی ڈاکٹر سے رابطہ کرنا ہو۔ شیریں آغا کہتے ہیں’ہم رات کے وقت بہت سی مشکلات کا سامنا ہے‘۔
موبائل مواصلاتی نظام کو مکمل طور پر بند رکھنے کی وجہ دراصل طالبان کی طرف سے دی جانے والی دھمکی ہے، جس میں قندوز میں فعال موبائل کمپنیوں سے کہا گیا تھا کہ اگرانہوں نے رات کے وقت اپنے اینٹیناز بند نہیں رکھے تو ان کے اہلکاروں کو دہشت گردانہ حملوں کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ خیال کیا جا رہا ہےکہ طالبان عناصر یہ نہیں چاہتےکہ قندوز کے عوام اپنا اتا پتا غیرملکی فورسز کو موبائل کے ذریعے دے سکیں۔ موبائل فون دراصل عسکریت پسندوں کی کھوج لگانے اوران کی سرگرمیوں کا پتا چلانے کے ضمن میں نیٹو فورسز کے لئے بھی نہایت کار آمد ثابت ہوتا ہے۔ قندوز میں اس قسم کی کارروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ شمال مغربی صوبہ قندوزجو تین سال پہلے تک جنوبی اور مشرقی افغان صوبوں کے مقابلے میں پُرسکون ہوا کرتا تھا، وہاں بھی اب عسکریت پسندوں کا زور بڑھ رہا ہے۔
ادھر طالبان کے ایک ترجمان ذبیح اللہ مُجاہد نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ ایک نا معلوم مقام سے رابطہ کرتے ہوئے کہا ’طالبان نے یہ فیصلہ سلامتی کی صورتحال کی وجہ سے کیا ہے‘۔ ذبیح اللہ مُجاہد نے مزید کہا ’ افغانستان کے دشمن اور قابض قوتیں موبائل فون کو مقامی لوگوں کا پتا معلوم کرنے اور ان کی نقل و حرکت پر نظررکھنے کے لئے دراصل ان لوگوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ’ مقامی لوگوں کی سیکیورٹی اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے طالبان نے موبائل فون کمپنیوں کو رات کے وقت تمام سگنلز بند رکھنے کو کہا ہے کیوں کہ سکیورٹی کے خطرات رات کو ہی زیادہ بڑھ جاتے ہیں‘۔
شروع شروع میں موبائل فون کمپنیوں نے طالبان کی دھمکیوں کو نظرانداز کیا، جس کے نتیجے میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران طالبان نے دوکمپنیوں کے اینٹیناز کو بموں سے اڑا دیا۔ اس کے بعد دیگر کمپنیوں نے فوری طور سے شام 6 سے صبح 6 بجے تک اپنا مواصلاتی نظام بند رکھنا شروع کردیا۔ نام نا ظاہرکرنے کی شرط پرایک موبائل فون کمپنی کے اہلکارنے کہا’ ہم اپنے ملک سے متعلق تمام تر اہم معلومات عوام تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تاہم اگر حکومت ہمارے کارکنوں اورہمارے سازو سامان کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو ہمارے پاس طالبان کے مطالبات ماننے کے سواکوئی چارہ نہیں ‘۔
ٹیلی مواصلاتی نظام سے تعلق رکھنے والے ایک اور کار کن کے مطابق ایک موبائل فون انٹینا کی قیمت تقریباً نصف ملین ڈالر ہوتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اصل قیمت ہمارے کارکنوں کی زنگیوں کی ہے جو داؤ پر لگی ہے‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ افغانستان میں کام کرنے والی تمام موبائل فون کمپنیوں نے مشترکہ طورطالبان کے غلبے والے علاقوں یا جہاں جہاں عسکریت پسندوں نے مطالبہ کیا ہے وہاں سے اپنے نیٹ ورک بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم تجریہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان عناصر ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ پورے افغانستان سے موبائل فون کا نظام ختم ہو جائے کیوں کہ ایک تو آپس میں رابطہ رکھنے کے لئے اور دوسرے وہ سڑک کے کنارے بم دھماکوں کے لئے بھی موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں۔ طالبان کواس امرکا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ اس قسم کے اقدام سے عوام کی طرف سے بھی شدید رد عمل سامنے آئے گا۔ مختلف صوبوں میں موبائل فون کمپنیوں کے اہلکاروں کو ڈرانے دھمکانے اور نیٹ ورک جزوی طورپر بند رکھنے کے احکامات کا مقصد علاقے میں طالبان کے زورکو واضح کرنا ہے۔
رپورٹ کشور مصطفیٰ
ادرات عدنان اسحاق