افغان فلم میکر برمک کے دم توڑتے سپنے
14 اکتوبر 2009برمک ان دنوں اپنی نئی فلم ’’اوپیم وار‘‘ (Opium War) کی اسکریننگ کے لئے جنوبی کوریا کے شہر بُوسان میں چودھویں بُوسان انٹرنیشنل فیسٹول میں پہنچے ہوئے ہیں۔ الفاط کی کمی کے باعث اب وہ اپنی فلموں کو اپنے دل کی آواز بناکر دنیا سے باتیں کرتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی قوت میں ایک مرتبہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ برمک اب اپنے چار بچوں اور بیوی کے ساتھ اپنے ملک سے مستقل طور پر نقل مکانی کے بارے سوچ رہے ہیں مگر ہجرت کا یہ فیصلہ کرنے میں انہیں بہت مشکل پیش آ رہی ہے۔ ان کے بقول ’’افغانستان کی حالت دیکھ کر اب میں مستقبل سے بہت ناامید ہوچکا ہوں، مگر مجھے اپنے وطن، اپنے لوگ، وہاں کے دریا اور وادیوں سے والہانہ محبت ہے۔ میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں افغانستان سے مستقل طور پر ہجرت کر جاؤں گا، مگر میں کیا کروں؟ میری بیوی اور میرے بچے وہیں ہیں اور وہاں ان کا مستقبل تاریک ہے۔‘‘ اپنے خود کے مستقبل کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ صرف فلمیں ہی بنا سکتے ہیں اور یہ کام وہ کرتے رہیں گے۔
آٹھ سال پہلے جب افغانستان میں اتحادی افواج نے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا اور عسکریت پسندوں نے پہاڑوں کا رخ کیا، تو صدیق برمک پاکستان میں موجود تھے:’’طالبان کی شکست کو قریب دیکھتے ہوئے میری خوشی دیدنی تھی۔‘‘ طالبان کے دَورِ اقتدار میں برمک پاکستان نقل مکانی کرگئے تھے کیونکہ طالبان کے رجعت پسند نظام میں سنیما اور آرٹ کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اُن کے پاکستان چلے جانے کے بعد طالبان نے نہ صرف اُن کی بہت سی فلمیں بلکہ پورے افغان فلم آرکائیو کو ہی تباہ کر دیا تھا۔
صدیق برمک کا تعلق افغانستان کے شمالی صوبے پنج شیر سے ہے۔ انہوں نے اسّی کی دہائی میں ماسکو سے سنیما کی تعلیم حاصل کی اور تب سے اب تک فلمیں اور دستاویزی فلمیں بنا رہے ہیں۔ ان کی فلم ’’اوسامہ‘‘ نے 2004 ء میں بہترین غیر ملکی فیچر فلم کا گولڈن گلوب ایوارڈ جیتا تھا۔ ’’اوسامہ‘‘ کی کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جو طالبان کی ظالمانہ حکومت کے دوران عورتوں کے خلاف بنائے گئے قوانین کے ڈر سے ایک لڑکے کا روپ دھار کر افغانستان سے فرار ہو جاتی ہے۔
برمک کی نئی فلم ’’اوپیم وار‘‘ کی کہانی دو امریکی فوجیوں کی ہے، جو ایک افغان باشندےکے گھر میں بس جاتے ہیں۔ اس فلم میں جہاں ایک طرف مستقبل سے ناامیدی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف اس میں افغان ریاست اور سماج کے بارے میں بنیادی سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں۔
ان دنوں صدیق برمک اپنا زیادہ تر وقت ’’افغان چلڈرن ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘‘ کا انتظام چلانے میں لگاتے ہیں۔ اس فلاحی تنظیم کی بنیاد نامور ایرانی فلم میکر محسن مخمل باف نے رکھی تھی، تاکہ افغان میں آرٹسٹوں کی ایک نئی نسل کو تیار کیا جاسکے۔
رپورٹ: انعام حسن
ادارت: امجد علی