افغان فوج اور پوليس کی تربيت بہتر بنائی جائے: امدادی تنظيميں
10 مئی 2011امدادی تنظيم Oxfam اورکئی دوسرے امدادی گروپوں نے کہا ہے کہ سن 2010 ميں 10 فيصد شہری ہلاکتوں کی ذمہ دار خود افغان پوليس اور فوج تھی۔ امدادی گروپوں نے عالمی برادری سے اپيل کی ہے کہ افغان سکيورٹی کے عملے کی تربيت کو بہتر بنايا جائے۔ Oxfam جرمنی کے سربراہ پال بينڈکس نے کہا: ’’افغانستان کے لوگوں کو اپنی سکيورٹی فورسز سے بہت اونچی توقعات ہيں۔ ليکن پوليس اور فوج پر اربوں ڈالر کی رقم خرچ کيے جانے کے باوجود وہ افغان شہريوں کے ليے اکثر تحفظ سے زيادہ خطرہ ثابت ہوتے ہيں۔‘‘
امدادی تنظيموں کی جاری کردہ ايک رپورٹ ميں ايسے واقعات بيان کيے گئے ہيں، جن ميں يہ شواہد ملتے ہيں کہ افغان پوليس اور فوج رات کے دوران چھاپے مارتی ہيں جن ميں شہريوں کی حفاظت کا مناسب خيال نہيں رکھا جاتا، بچوں کو بھی جنسی زيادتيوں کا نشانہ بنايا اور اُنہيں بھرتی بھی کيا جاتا ہے، حراست کے دوران بد سلوکی کی جاتی ہے اور مقامی پوليس شہريوں کے خلاف زيادتياں کرتی اور اُنہيں ہلاک بھی کرتی ہے۔ بہت سے شہری پوليس کو جرائم پيشہ افراد کا گروپ سمجھتے ہيں۔
نيٹو کی قيادت ميں بين الاقوامی فوج جولائی ميں افغانستان کے سات علاقوں ميں سکيورٹی کی ذمہ داری مقامی فوج اور پوليس کو منتقل کر دے گی۔ يہ سکيورٹی ذمے داريوں کی منتقلی کا آغاز ہوگا جس کی تکميل سن 2014 تک ہو جائے گی۔
افغان پوليس اور فوج کی کارکردگی سے بہت غير مطمئن آکسفيم اور دوسری امدادی تنظيموں کا کہنا ہے کہ اُن کی ٹريننگ اور بھرتی کے طريقہء کار ميں اصلاحات کی جائيں، جن ميں يہ چھان بين بھی کی جائے کہ کيا بھرتی کيے جانے والے قابل اعتبار ہيں اور ماضی ميں جرائم ميں بھی ملوث نہيں رہے۔
بينڈکس نے کہا: ’’ہم نيٹو فوج اور افغان حکومت سے اپيل کرتے ہيں کہ وہ افغان سکيورٹی فورسز کی بہتر نگرانی کا انتظام کريں اور اُن کی تربيت کے دوران شہريوں پر تشدد سے گريز پر خصوصی زور ديا جائے۔‘‘
بينڈکس نے يہ بھی کہا کہ جرمنی اور دوسرے اتحادی افغانستان سے چلے جانےکے بعد بھی وہاں قانون کی حکمرانی کی ذمہ داری ميں بڑی حد تک شريک رہيں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ افغان سکيورٹی فورسز امن و امان کے قيام اورخود اپنے شہريوں کے تحفظ کی ذمہ داری سنبھالنے کی منزل سے ابھی بہت دور ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک