افغان مشن: امریکی عوام کی تشویش پر نیٹو پریشان
29 ستمبر 2009نیٹو کے سربراہ آندرس راسموسن نے کہا ہے کہ انہیں نیٹو سے متعلق امریکی عوام میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کی خبریں مل رہی ہے، جس پر انہیں تشویش ہے۔ راسموسن کے مطابق ایسا لگتا ہے، جیسے امریکی اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ نیٹو امریکہ اور عالمی سلامتی کے لئے کتنی کوششیں کر رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس رجحان کا رُخ مثبت سمت میں موڑنا ہو گا۔
نیٹو کے سربراہ کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب افغان مشن میں پیش رفت سست روی کا شکا ہے، اتحادی فوجیوں کی پے درپے ہلاکتیں بھی مسئلہ بنی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے امریکہ میں بھی اس جنگ کے لئے حمایت کم ہوتی جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ آپریشن امریکی سربراہی میں ہی جاری ہے، جس نے 2001 میں اپنی سرزمین پر القاعدہ کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا۔
راسموسن نے افغان مشن میں نیٹو کی انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تعینات فوجیوں میں 40 فیصد غیرامریکی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپ میں روایتی طور پر افغان جنگ کے بارے میں مخالفت پائی جاتی ہے، جہاں نیٹو کے بعض ایسے رکن ممالک، جن کے افغانستان میں فوجی تعینات تو ہیں، لیکن وہ انہیں کشیدگی والے علاقوں میں بھیجنے پر تیار نہیں۔ اس حوالے سے آندرس راسموسن نے کہا کہ وہ جانتے ہیں، واشنگٹن حکومت اس بات سے نالاں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔
راسموسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ بین الاقوامی دفاعی ضروریات کے لئے نیٹو انتہائی اہم ہے اور یہ بات افغانستان میں جاری آپریشن سے ثابت ہو چکی ہے۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ امریکہ میں اس بات کو اسی طرح سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں تعلیم اور تحفظ کے شعبوں میں کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ نیٹو کے رکن ممالک اپنے عوام کو ان کامیابیوں سے آگاہ کریں۔ راسموسن امریکی اٹلانٹک کونسل کے اجلاس میں بھی شریک ہو رہے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: کشور مصطفیٰ