افغان مشن کے لئے مزید فوجی، بلآخر فیصلہ ہو گیا
2 دسمبر 2009واشنگٹن انتظامیہ اس حوالے سے تقریبا تین ماہ تک غور کرتی رہی ہے۔ تاہم اوباما نے منگل کو قوم سے خطاب کے دوران نئی پالیسی سے پردہ اٹھایا۔ انہوں نے یہ خطاب نیویارک میں ویسٹ پوائنٹ پر قائم ملٹری اکیڈمی میں کیا۔
اس موقع پر باراک اوباما نے گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے دہشت گردانہ حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ذمہ داروں کا تعلق القاعدہ سے تھا، جنہوں نے معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے کے لئے عظیم مذاہب میں سے ایک یعنی اسلام کو بدنام کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ القاعدہ کا گڑھ افغانستان ہی رہا ہے۔
باراک اوباما نے کہا کہ القاعدہ اور طالبان اپنے محفوظ مقامات کی تلاش میں پڑوسی ملک پاکستان کی طرف چلے گئے اور اس طرح پاکستان بھی مکمل طور پر غیر محفوظ ہو کر رہ گیا۔ اوباما نے کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اسے انتہا پسندوں کے شر سے محفوظ رکھنا کافی مشکل ہے۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مزید فوجیوں کی تعیناتی امریکہ کے مفاد میں ہے۔ اوباما نے کہا کہ افغانستان پیچھے ضرور رہ گیا ہے، لیکن ہاتھ سے نہیں نکلا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ طالبان شدت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں جاری لڑائی ویت نام کی جنگ کی مانند نہیں۔ امریکی صدر نے کہا کہ واشنگٹن انتظامیہ اسلام آباد سے شراکت کے بارے میں سنجیدہ ہے اور دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
کابل حکومت کی جانب سے مالی بدعنوانی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لئے مزید بلینک چیک جاری نہیں کئے جائیں گے اور اسے کرپشن پر قابو پانا ہوگا۔
وائٹ ہاؤس نے اوباما کی اس تقریر سے ایک روز قبل ہی کہہ دیا تھا کہ اوباما اپنے عسکری کمانڈروں کو اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے متعلق فیصلے سے آگاہ کر چکے ہیں۔
اس مقصد کے لئے انہوں نے اپنے مشیروں سے ملاقات بھی کی۔ ساتھ ہی انہوں نے افغان جنگ میں شامل اپنے اتحادی ممالک کو بھی منصوبے کی تفصیلات جاری کیں جبکہ منگل کے خطاب سے قبل وہ کانگریس کے رہنماؤں سے بھی ملے۔
امریکہ کی نئی افغان پالیسی کا مقصد شدت پسندوں پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ وہاں سے اپنی افواج کے انخلاء کو بھی ممکن بنانا ہے۔ تاہم وہاں مزید فوجی بھیجنے کے فیصلے پر اوباما کو اندرون ملک مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بیشتر امریکی چاہتے ہیں کہ واشنگٹن انتظامیہ افغان جنگ کے بجائے کمزور معیشت اور شرح بے روزگاری پر توجہ دے، جو دس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔
دوسری جانب برطانیہ نے بھی پانچ سو مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ کے بعد برطانیہ کے سب سے زیادہ فوجی اس مشن میں شامل ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے کہا ہے کہ اضافی فوجی رواں ماہ افغانستان پہنچ جائیں گے، جس کے بعد وہاں تعینات ان کے فوجیوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: کشور مصطفیٰ