افغان مہاجر کی جانب سے زنا بالجبر اور قتل کا مبینہ ارتکاب
6 دسمبر 2016گزشتہ ہفتے جرمن پولیس نے ایک سترہ سالہ افغان مہاجر کو اس الزام میں گرفتار کیا تھا کہ اس نے جرمنی کے جنوب مغربی شہر فرائبرگ میں میڈیکل کی ایک انیس سالہ طالبہ کو زنا بالجبر کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ اس لڑکی کی لاش پولیس کو ایک دریا سے ملی تھی۔ اس واقعے پر جرمن عوام کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے، جس کی ایک وجہ افغان لڑکے کا مہاجر ہونا بھی ہے۔ یہ نوجوان گزشتہ برس افغانستان سے ہجرت کر کے جرمنی آیا تھا۔
جرمنی کے قدامت پسند حلقوں، بالخصوص ان سیاست دانوں نے جو ملک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف ہیں، نے اس واقعے کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل پر تنقید کا حوالہ بنایا ہے۔ واضح رہے کہ میرکل دیگر یورپی رہنماؤں کی نسبت مہاجرین کے بارے میں فراخ دلانہ رویہ رکھتی ہیں۔ ان کی حکومت نے شام، عراق، لیبیا اور افغانستان جیسے جنگ زدہ مالک سے یورپ آنے والے لاکھوں افراد کر جرمنی میں پناہ دی ہے۔
پیر کے روز میرکل نے سرکاری نشریاتی ادارے اے آر ڈی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اگر یہ ثابت ہو گیا کہ افغان مہاجر مجرم تھا تو اس کی اسی طرح مذمت کی جانا چاہیے جیسے کہ کسی دوسرے قتل کے واقعے کی۔‘‘
میرکل کا مزید کہنا تھا، ’’لیکن اس واقعے کو بنیاد بنا کر ایک پورے گروپ کی مذمت کرنا درست نہیں ہوگا۔ یہ ایک فرد کا عمل ہے۔‘‘
پولیس کا کہنا کہ افغان مہاجر، جسے جمعے کے روز گرفتار کیا گیا، کے ڈی این اے ٹیسٹ سے اس کے ریپ کے واقعے میں ملوث ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔ ایک ویڈیو فوٹیج بھی اس کے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ افغان لڑکے نے اب تک اپنا بیان قلم بند نہیں کروایا ہے۔
قوم پرست جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی کے رہنما یوئرگ میوتھین کا اس بارے میں کہنا ہے کہ واقعے کے ذمے دار جرمن چانسلر میرکل اور نائب چانسلر زیگمار گابریئل بھی ہیں۔ ’’ان کو اس واقعے اور ایسے کئی واقعات کی ذمے داری قبول کرنا چاہیے جو کہ جرمنی میں مہاجرین کے بلا روک ٹوک داخلے کے نتیجے میں رونما ہو رہے ہیں۔‘‘
جرمن حکومت کے کئی اعلیٰ عہدے داروں نے طالبہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کی مذمت کی ہے، تاہم جرمنی میں دائیں بازو کی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ صورت حال اگلے برس چانسلر کے عہدے کے انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔