افغان مہاجرین کے ساتھ شامیوں کی طرح سلوک کریں، افغان وزیر
27 اکتوبر 2015جرمنی حکومت کے ایک منصوبے کے مطابق ایسے افغان مہاجرین کو واپس ان کے ملک بھیج دیا جائے گا، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں لیکن کیا افغان حکومت اس منصوبے سے آگاہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سید حسین عالمی بلخی کا کہنا تھا، ’’ہم جرمن حکومت کے کسی ایسے فیصلے سے آگاہ نہیں ہیں۔ افغانوں کی ملک بدری سے متعلق ہمارا جرمن حکومت سے ایک معاہدہ ضرور ہے۔ اس معاہدے کے تحت جرمن حکومت کو ہمیں ان افغانوں سے متعلق لسٹ فراہم کرنا ہوتی ہے، جن کو ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک ہمیں اس طرح کی کوئی بھی فہرست فراہم نہیں کی گئی ہے۔‘‘
بلخی کہتے ہیں کہ حال ہی میں ان کی جنیوا میں ایک جرمن وفد سے ملاقات ہوئی تھی، جس میں انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے، ’’ لہذا میں نے خاص طور پر درخواست کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی افغان سیاسی پناہ گزین کو واپس نہ بھیجا جائے، ساتھ ہی میں نے جرمن اداروں سے یہ بھی اپیل کی کہ فوری طور پر مزید افغان مہاجرین کو پناہ دی جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی انہوں نے افغانستان میں تعینات جرمن سفیر سے بھی ملاقات کی ہے، جس میں باقاعدہ طور پر جرمن حکومت سے مزید افغان مہاجرین کو پناہ دینے کی اپیل کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی اپیل کی گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افغانوں کی سیاسی پناہ سے متعلق کابل میں ہی فیصلے کیے جائیں۔
افغانستان میں سلامتی کی خراب صورتحال سے متعلق ان کا کہنا تھا، ’’ہم سب نے ہی قندوز، بغلان، ننگرہار سرِپل اور فریاب صوبوں میں سکیورٹی کے مسائل کا تجربہ کیا ہے اور اسی طرح کئی دیگر افغان صوبوں کو بھی سکیورٹی کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔‘‘
اگر جرمن حکومت نے افغانوں کو ملک بدر کرنا شروع کر دیا تو افغانستان کا ردعمل کیا ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ’’ہمارا رد عمل جرمن حکومت کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے مطابق ہوگا۔ اور اس معاہدے کے مطابق غیر محفوظ افغانوں کی ملک بدری نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر ایسے خاندانوں کی واپسی نہیں ہو گی، جن کے ملک بدری کے نتیجے میں ٹوٹنے کا خطرہ ہو۔ اسی طرح ایسے بچے اور مائیں بھی واپس نہیں بھیجے جا سکتے، جو تنہا ہیں یا ان کا تعلق کسی عدم استحکام کے شکار علاقوں سے ہے۔‘‘
ان کا مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جرمن حکومت نے شامی مہاجرین کو ’خصوصی درجہ‘ دیا ہے اور اسی طرح افغان مہاجرین کو بھی ’ترجیحی درجہ‘ دیا جانا چاہیے۔