مجھے برقعہ پسند نہیں: افغان نوجوان خواتین طالبان سے خوفزدہ
29 اگست 2019افغان دارالحکومت کابل میں زرد رنگوں والے دو برقعے ایک مقامی ٹیلی وژن اسٹیشن کے باہر نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ یہ برقعے انہی نیلے لباسوں کی ایک قسم ہیں، جو کابل میں ابھی بھی کچھ خواتین پہنتی ہیں۔ زن ٹیلی وژن میں ملازمت کرنے والی نوجوان خواتین کے لیے یہ برقعے طالبان کے دور حکومت کی ایک یاد دہانی ہیں۔
زن ٹی وی کی چیف ڈائریکٹر شگوفہ صادقی کا کہنا ہے کہ وہ خود کو طالبان کے حوالے نہیں کریں گی کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس جنگجو گروہ کو اب ایک نئی نسل کا سامنا کرنا ہوگا اور نوجوانوں پر ان کا زیادہ اثر نہیں ہو گا۔ شگوفہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ برقعہ پہننا چاہیں گی تو انہوں واضح طور پر کہا، ''مجھے برقعہ پسند نہیں ۔‘‘
تیئیس سالہ کرشمہ ناز طالبان سے زیادہ توقعات نہیں رکھتیں۔ کرشمہ زن ٹی وی پر موسیقی کے ایک پروگرام کی میزبان ہیں۔ ان کے خیال میں اگر ماضی کی طرح سخت حالات دوبارہ پیدا ہوئے تو ان کے پاس صرف دو ہی راستے ہوں گے پہلا یا تو وہ گھر بیٹھ جائیں گی یا پھر ملک چھوڑ دیں گی۔
تاہم ملک سے باہر جانے کا آپشن بہت سی افغان خواتین کو دستیاب نہیں ہے۔ افغانستان خواتین کے حقوق کے حوالے سے ابھی بھی ایک قدامت پسند ملک ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان طویل عرصے سے جاری جنگ میں نوجوان افغان نسل سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اور وہ خوف کا شکار بھی ہے۔ وہ اب امریکا اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل میں اپنے ملک کے مستقبل کے فیصلوں کے حوالے سے اپنی آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔
افغانستان کی کل آبادی کے دو تہائی کی عمر پچیس سال یا پھر اس سے بھی کم ہے۔ انہوں نے سن 2001 سے قبل کا افغان معاشرہ نہیں دیکھا۔ یہ وہ دور تھا جب امریکی اتحاد نے طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا کیونکہ انہوں نے 9/11 حملے کے ذمہ دار اسامہ بن لادن کو پناہ دی تھی۔
اب نوجوان افغان نسل امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے درمیان جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کا عمل دیکھ رہی ہے۔ تاہم اس بارے میں ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ بین الاقوامی افواج کے افغانستان سے رخصت ہو جانے کے بعد طالبان کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔